جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

رمضان المبارك ميں قرآن مجيد ختم كرنا مستحب ہے

سوال

گزارش ہے كہ كيا مسلمان كے ليے رمضان المبارك ميں قرآن مجيد ختم كرنا ضرورى ہے، اور جواب مثبت ہو تو اس كى دليل ميں كوئى حديث بھى بيان كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسئلہ كو بادليل معلوم كرنے كى حرص ركھنے پر سائل كے مشكور ہيں بلاشك يہى مطلوب مقصود ہے كہ ہر مسلمان شخص اس كى كوشش بھى كرے تا كہ كتاب و سنت پر عمل پيرا ہو سكے.

امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جب آپ كے ہاں يہ بات فيصلہ كن ہے كہ عام شخص عالم سے دريافت كرے اور ناقص اور كم علم والا اپنے سے زيادہ اور كامل علم والے سے دريافت كرے، اس ليے اسے معروف اہل علم اور متقى و اہل ورع سے مسائل دريافت كرنے چاہييں، اس عالم سے جو كتاب و سنت كا علم ہواور ان ميں پائے جانے والے مسائل كو جانتا ہو، اور انہيں سمجھنے كے ليے باقى علوم كا بھى علم ركھے، حتى كہ لوگ اس كى بابت لوگوں كو آگاہ كريں، اور اس كى طرف راہنمائى كريں، چنانچہ وہ اپنے حادثات كے متعلق كتاب و سنت سے بادليل دريافت كرے، يا پھر سنت و نبويہ ميں جو كچھ ہے اس كے ساتھ.

تو اس وقت وہ حق كو اس كى اصل جگہ سے حاصل كرےگا، اور احكام كو اس كى جگہ سے لےگا، اور ايسى رائے سے بھى محفوظ ہو گا جس پر عمل كرنے والے كى غلطى اور شريعت كى مخالف سے پرامن نہيں رہا جا سكتا، جو حق كے بھى مخالف ہو " انتہى.

ديكھيں: ارشاد الفحول ( 450 - 451 ).

اور حافظ ابن صلاح كى كتاب " ادب المفتى و المستفتى " كے صفحہ نمبر ( 171 ) ميں ہے كہ:

" سمعانى رحمہ اللہ نے ذكر كيا ہے كہ: مفتى سے دليل طلب كرنے ميں كوئى مانع نہيں، تا كہ اپنے ليے احتياط كرے، اور اگر اسے قطعى دليل معلوم ہو تو اس كے ليے دليل بيان كرنا لازم ہے، ليكن اگر مقطوع نہيں تو پھر لازم نہيں كيونكہ اس ميں وہ اجتھاد كا محتاج ہے جس سے عامى شخص قاصر ہے. واللہ اعلم بالصواب " انتہى.

دوم:

جى ہاں مسلمان شخص كے ليے رمضان المبارك ميں قرآن مجيد كثرت سے پڑھنا مستحب ہے، اور وہ اسے ختم كرنے كى حرص ركھے، ليكن يہ اس كے ليے واجب نہيں، يعنى دوسرے معنى ميں اس طرح كہ اگر وہ قرآن مجيد ختم نہ كر سكے تو وہ گنہگار نہيں ہوگا، ليكن وہ بہت عظيم اجروثواب سے محروم رہے گا.

اس كى دليل بخارى شريف كى درج ذيل حديث ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: " جبريل امين ہر سال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر ايك بار قرآن مجيد پيش كرتے، اور جس برس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو اس برس جبريل امين نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ دوبار قرآن كا دور كيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4614 ).

ابن اثير رحمہ اللہ تعالى " الجامع فى غريب الحديث " ميں كہتے ہيں:

" يعنى جتنا قرآن مجيد نازل ہو چكا ہوتا اس كا دور كيا كرتے تھے " انتہى.

ديكھيں: الجامع فى غريب الحديث ( 4 / 64 ).

سلف رحمہ اللہ كا طريقہ تھا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر عمل كرتے ہوئے رمضان المبارك ميں ايك بار قرآن مجيد ختم كيا كرتے تھے.

ابراہيم نخعى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ: اسود رحمہ اللہ رمضان المبارك ميں ہر دو راتوں ميں قرآن مجيد ختم كيا كرتے تھے "

السير ( 4 / 51 ).

اور قتادہ رحمہ اللہ سات راتوں ميں قرآن ختم كيا كرتے، اور جب رمضان المبارك شروع ہوتا تو تين راتوں ميں ختم كرتے، اور جب آخرى عشرہ شروع ہوتا تو ہر رات قرآن مجيد ختم كرتے "

ديكھيں: السير ( 5 / 276 ).

اور مجاہد رحمہ اللہ رمضان المبارك ميں ہر رات قرآن مجيد ختم كيا كرتے تھے "

ديكھيں: التبيان للنووى صفحہ نمبر ( 74 ) امام نووى نے اس كى سند كو صحيح قرار ديا ہے.

مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: على ازدى رمضان المبارك ميں ہر رات قرآن مجيد ختم كيا كرتے تھے "

ديكھيں: تھذيب الكمال ( 2 / 983 ).

اور ربيع بن سلمان كہتے ہيں: امام شافعى رحمہ اللہ رمضان المبارك ميں ساتھ بار قرآن ختم كيا كرتے تھے "

ديكھيں: السير ( 10 / 36 ).

قاسم بن حافظ ابن عساكر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ميرے والد نماز باجماعت اور تلاوت قرآن كى پابندى كرتے تھے، اور ہر جمعہ قرآن مجيد ختم كرتے، اور رمضان المبارك ميں ہر روز قرآن مجيد ختم كرتے "

ديكھيں: السير ( 20 / 562 ).

امام نووى رحمہ اللہ قرآن مجيد ختم كرنے كى تعداد پر تعليقا كہتے ہيں:

" اختيار كردہ يہى ہے كہ يہ اشخاص كے اعتبار سے مختلف ہوگا، اگر تو كوئى شخص دقيق فكر و سوچ، اور لطائف و معارف كا مالك ہے، تو اسے اسى قدر پر اكتفا كرنا چاہيے جس سے اسے كمال فہم حاصل ہو.

اور اسى طرح جو شخص نشر علم يا دوسرے دينى امور، اور عام مسلمانوں كے رفاہى كاموں ميں مشغول ہو تو اسے بھى اسى قدر قرآت كرنى چاہيے جس سے خلل پيدا نہ ہو.

اور اگر مذكورہ بالا افراد ميں سے نہ ہو تو جتنا بھى ممكن ہو سكے كثرت سے تلاوت كرے، جس سے ملل اور اكتاہٹ نہ ہو " انتہى.

ديكھيں: التبيان ( 76 ).

اس استحباب اور رمضان المبارك ميں قرآت قرآن كى تاكيد كے باوجود يہ مستحب كے دائرہ ميں ہى رہے گى، نہ كہ ضرورى واجبات ميں شامل ہو گا جس كے ترك كرنے پر مسلمان گنہگار ہو.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا رمضان المبارك ميں روزے دار كے ليے قرآن مجيد ختم كرنا واجب ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" رمضان المبارك ميں روزے دار كے ليے قرآن مجيد ختم كرنا واجب تو نہيں، ليكن انسان كو رمضان المبارك ميں كثرت سے قرآن مجيد كى تلاوت ضرور كرنى چاہيے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت سے ثابت ہے، كہ ہر رمضان المبارك ميں جبريل امين رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ قرآن مجيد كا دور كيا كرتے تھے" انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 20 / 516 ).

مزيد تفصيل اور معلومات كے ليے سوال نمبر ( 66063 ) اور ( 26327 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب