الحمد للہ.
غصہ انسان پر شیطانی حملوں میں سے ایک حملہ ہے، غصے کی وجہ سے انسان ایسے گناہوں اور جرائم میں ملوث ہو جاتا ہے جنہیں اللہ ہی جانتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت میں اس مذموم صفت غصے کا تذکرہ بڑا تفصیلی ملتا ہے، اسی طرح سنت نبوی میں غصے کی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے علاج اور اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے بھی اقدامات کا ذکر ملتا ہے، مثلاً:
1-شیطانی اثرات سے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کریں:
سیدنا سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اور ( قریب ہی ) دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے کہ ایک شخص کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس کی گردن کی رگیں پھول گئیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص وہ پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا ۔ چنانچہ اگر یہ شخص پڑھے : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ ترجمہ : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان سے ۔ تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: جب کوئی آدمی غصے میں ہو اور وہ { أَعُوذُ بِاللَّهِ} پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ صحیح الجامع الصغیر: حدیث نمبر: (695)
2- خاموشی اختیار کرے:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو خاموش ہو جائے۔) اس روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے مسند: (1/329)میں اور اسی طرح صحیح الجامع : 693 ، 4027 میں البانیؒ رحمہ اللہ نے اسے بیان کیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ غصے میں انسان عام طور پر اپنے آپ سے باہر ہو جاتا ہے اور اسے غصے کا بھی احساس نہیں ہوتا ، پھر غصے کی حالت میں ایسے الفاظ زبان سے بول جاتا ہے جس میں -نعوذ باللہ-کفریہ کلمات بھی ہو سکتے ہیں، یا لعن طعن ہو سکتی ہے، یا گھر کو اجاڑنے والی طلاق کے الفاظ بھی ہو سکتے ہیں، یا گالم گلوچ بھی ہو سکتی ہے جس سے انسان کے مزید دشمن پیدا ہوں گے، مجموعی طور پر دیکھا جائے تو خاموشی ان تمام چیزوں سے بچاؤں کا بہترین حل ہے۔
3- غصہ آئے تو پر سکون رہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، تو اگر بیٹھنے سے غصہ ختم ہو جائے تو ٹھیک وگرنہ پھر لیٹ جائے۔)
اس حدیث کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہی ایک واقعہ ہوا کہ: ایک بار آپ رضی اللہ عنہ اپنے حوض سے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے کہ کچھ لوگوں آئے اور آپس میں انہوں نے [شرارت کے لیے] کہا: ابو ذر کے پانی پلانے کے دوران کون ان کے پاس جائے گا اور ان کے سر سے بال لے کر آئے گا؟ تو ایک آدمی نے کہا: میں اس کام کے لیے تیار ہوں، تو اس شخص نے جا کر سب سے پہلے تو حوض توڑنے اور ڈھانے کی کوشش کی۔ ادھر سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کو توقع یہ تھی کہ یہ شخص اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے میری مدد کے لیے آیا ہے، لیکن وہ تو الٹا بد سلوکی اور حوض کو ہی توڑنے کے در پے ہو گیا۔
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ پہلے کھڑے تھے، پھر بیٹھ گئے اور آخر کار اس کی حرکتوں پر لیٹ گئے۔ تو آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ: ابو ذر رضی اللہ عنہ آپ پہلے بیٹھے اور پھر لیٹ گئے کیوں؟ تو انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے مکمل حدیث بیان فرمائی۔۔۔۔ یہ پورا واقعہ مسند احمد: (5/152) اور اسی طرح مختصر حدیث صحیح الجامع ، حدیث نمبر: (694) میں مذکور ہے۔
اور ایک روایت میں کچھ یوں وضاحت ہے کہ: ابو ذر رضی اللہ عنہ حوض پر پانی پلا رہے تھے تو ایک شخص نے آپ رضی اللہ عنہ کو غضبناک کر دیا تو آپ رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ فیض القدیر: (1/408)
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس ہدایت کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ غصے کی حالت میں غضبناک شخص بیوقوفانہ حرکتوں سے رک جاتا ہے؛ کیونکہ غصے میں آ کر انسان کسی کو مارنے لگ جائے، یا کوئی اور اذیت پہنچائے، بلکہ بعض تو طیش میں آ کر قتل تک کر دیتے ہیں، جیسے کہ آگے آ رہا ہے، یا غصے میں کوئی چیز تلف کر دے، یا اسی طرح کی کوئی اور منفی حرکت کر بیٹھے۔ چنانچہ جب انسان غصے کی حالت میں بیٹھا ہوا ہو گا تو مزاج میں ہیجان اور طیش سے قدرے دور ہو گا، اور اگر لیٹ جائے گا تو غصے میں ہونے والی منفی سرگرمیوں کا امکان مزید کم ہو جائے گا۔
چنانچہ علامہ خطابی رحمہ اللہ ابو داود کی شرح میں لکھتے ہیں:
“کھڑا شخص حرکت اور ہاتھ چلانے کے لیے بالکل تیار ہوتا ہے، جبکہ بیٹھے ہوئے شخص میں یہ بات قدرے کم ہوتی ہے، اور لیٹا ہوا شخص تو بالکل ہی نہ حرکت کر سکتا ہے اور نہ ہاتھ چلا سکتا ہے، تو عین ممکن ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے غصے والے شخص کو بیٹھنے اور پھر لیٹنے کا حکم اسی لیے دیا ہو کہ کھڑے ہونے یا بیٹھنے کی حالت میں غضب ناک شخص سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو جائے کہ جس پر بعد میں ندامت اٹھانی پڑے۔ واللہ اعلم”ختم شد
شرح سنن ابو داود، معالم السنن: (5/141)
4-رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نصیحت ہر وقت ذہن نشین رہے: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے نصیحت فرمائیں: تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔ تو اس شخص نے کئی بار مزید نصیحت کا مطالبہ دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر بار فرمایا: غصہ نہ کیا کرو۔
بخاری مع الفتح: (10/456)
ایک روایت کے مطابق اسی شخص نے کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار مجھے ایک ہی نصیحت فرمائی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ غصہ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ مسند احمد: (5/373)
5- حدیث مبارکہ میں ہے کہ غصہ نہ کرو تو تمہارے لیے جنت ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے: صحیح الجامع: (7374)، ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ طبرانی کا دیا ہے، دیکھیں: فتح الباری: (4/465)
جو متقی لوگ غصے کے اسباب سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں، غصہ روکنے کے لیے مجاہدہ بالنفس کرتے ہیں اللہ تعالی نے ان کے لیے بہت کچھ انعام و اکرام کے طور پر تیار کیا ہے، اسے ذہن نشین رکھنے سے غصے کی آگ بھجانے میں بڑی مدد ملتی ہے، اور اس حوالے سے جو اجر عظیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارکہ میں ہمیں ملتا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: (جو شخص غصہ پی جائے، اور وہ اس کیفیت میں ہو کہ اگر غصہ نکالنا چاہے تو نکال سکتا تھا۔ [لیکن وہ نہیں نکالتا تو] اللہ تعالی اس کے دل کو قیامت کے دن رضا مندی سے بھر دے گا۔) اس حدیث کو امام طبرانی (12/453) نے روایت کیا ہے، اور یہ صحیح الجامع: (176) میں بھی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک اور حدیث مبارکہ میں غصہ پی جانے والے شخص کے لیے ایک اور اجر بھی ہے: (جو شخص بھی غصہ پی جائے حالانکہ وہ اپنا غصہ نافذ کرنے پر قادر بھی ہو تو اللہ تعالی اسے ساری مخلوقات کے سامنے قیامت کے دن بلائے گا اور اسے اختیار عطا فرمائے گا کہ وہ من چاہی حور عین لے لے۔)اس حدیث کو ابو داود: (4777) اور دیگر نے روایت کیا ہے، اور صحیح الجامع : (6518) میں اسے البانیؒ نے حسن قرار دیا ہے۔
6- غصے کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھنے والے کے بلند مقام اور غیر معمولی امتیاز حاصل ہوتا ہے۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (طاقت ور وہ نہیں ہے جو دوسروں کو پچھاڑ دے، طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔) اس حدیث کو امام احمد: (2/236) نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
جس قدر غصہ شدید ہو گا اسی قدر غصے کو قابو رکھنا اور اسے پی جانا اعلی درجات کا حامل عمل ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اصل دنگل تو اس وقت لگتا ہے جب انسان غصے میں ہو اور غصے سے چہرہ سرخ ہو جائے ، رونگٹے گھڑے ہو جائیں، اور پھر بھی انسان غصے کو پچھاڑ دے۔)اس حدیث کو امام احمد: (5/367) نے روایت کیا ہے، اور البانیؒ نے اسے صحیح الجامع: (3859) میں حسن قرار دیا ہے۔
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام کے ہمراہ تھے اور موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے غصے کے بارے میں سب کو سمجھایا، چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے مجمع کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے استفسار فرمایا: یہاں کیا ہو رہا ہے؟ تو لوگوں نے بتلایا: فلاں پہلوان ہے، جو بھی اس سے کشتی کے لیے آتا ہے تو وہ اسے پچھاڑ دیتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں اس سے بھی طاقتور پہلوان کے بارے میں نہ بتلاؤں؟ ایک شخص پر کسی نے ظلم کیا، تو مظلوم اپنے غصے کو پی گیا ، تو یہ مظلوم شخص اپنے آپ پر ، اپنے شیطان پر اور ظالم کے شیطان پر غالب آ گیا۔) اس حدیث کو بزار رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری: (10/519) میں اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
7- غصے کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عملی سیرت پر عمل:
غصے کی حالت میں اپنے آپ پر قابو رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کی امتیازی خوبی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لیے مکمل اسوہ اور پیشوا ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ خوبی متعدد احادیث میں واضح ہے، جن میں اہم ترین حدیث یہ ہے کہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نجران کی بنی ہوئی سخت کناروں والی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں ایک دیہاتی نے آپ کو گھیر لیا اور زور سے آپ کو کھینچا ، میں نے آپ کے شانے کو دیکھا ، اس پر چادر کو سختی سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے سے نشان پڑ گئے۔ پھر کہنے لگا ۔ اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے کچھ مجھ کو دلائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دئیے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے دینے کا حکم فرمایا ۔ متفق علیہ، فتح الباری: (10/375)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم غصہ بھی اللہ کے لیے کریں؛ چنانچہ جب اللہ تعالی کی حدود پامال کی جائیں تو پھر غصے کا اظہار قابل تعریف ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت خوب غضب ناک ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتلایا گیا کہ فلاں امام لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے لمبی نماز پڑھاتا ہے اس لیے لوگ نماز با جماعت سے متنفر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت بھی اظہار ناراضی فرمایا ، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ذی روح چیزوں کی تصاویر والا پردہ دیکھا، ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اظہار غضب فرمایا جب سیدنا اسامہ نے چوری کرنے والی مخزومی عورت کے بارے میں سفارش کرنے کی کوشش کی تھی، اور انہیں فرمایا تھا: کیا تم اللہ کی حدود کے متعلق سفارش کرتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت بھی غصہ فرمایا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ ناگوار چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا، اس کے علاوہ اور بھی مواقع ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صرف اللہ کے لیے غصہ کرتے تھے۔
8-اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ غصہ پی جانا متقی لوگوں کی علامت ہے:
یہی وہ لوگ ہیں جن کی اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مدح و توصیف فرمائی ہے، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تعریفی کلمات کہے ہیں، نیز ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی گئی ہیں جن کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، تو ان کی خوبیاں اس آیت کریمہ میں ذکر فرمائیں: وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (١٣٣) الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ترجمہ: اور اپنے رب کی جانب سے مغفرت اور جنت کی طرف تیزی سے بڑھو کہ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اور وہ متقین کے لیے تیار کی گئی ہے۔ [133] یہ وہ لوگ ہیں جو فراوانی اور تنگی میں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اور غصہ پی جاتے ہیں، نیز لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالی تو حسن کارکردگی کے حامل افراد سے محبت فرماتا ہے۔ [آل عمران: 133 – 134]
جن لوگوں کا اللہ تعالی نے تذکرہ فرمایا ہے ان کے اچھے اخلاق میں ایسی خوبیاں بھی شامل ہیں جسے پانے کے لیے لوگ گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں، دل میں انہیں حاصل کرنے کی تمنا کرتے ہیں، انہی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ: وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ ترجمہ: اور جب وہ غضب ناک ہوتے ہیں تو وہ معاف کر دیتے ہیں۔ [الشوری: 37]
9-غضب ناک شخص کو نصیحت کی جائے تو نصیحت قبول کرے:
غصہ طبعی چیز ہے اور لوگوں کا غصہ یکساں نہیں ہوتا، بڑا مشکل ہے کہ کسی شخص کو کبھی غصہ آئے ہی نا، لیکن درجۂ صدیق پر فائز لوگوں کو جب غصے کی حالت میں بھی نصیحت کی جائے تو اللہ کو یاد کر کے اللہ تعالی کی قائم کردہ حددو سے تجاوز نہیں کرتے، جیسے کہ ان کی عملی مثال درج ذیل واقعہ میں ملتی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کی اجازت چاہی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی، اس شخص نے آپ سے کہا: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! آپ نہ مال دیتے ہیں نہ عدل کرتے ہیں! اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ غضب ناک ہوئے اور قریب تھا کہ اسے گرا لیتے، تو اتنے میں ساتھ بیٹھے ہوئے حر بن قیس نے کہا: اے امیر المؤمنین! اللہ تعالی نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرمایا تھا: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ترجمہ: در گزر اختیار کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کر ۔[الاعراف: 199] تو یہ شخص بھی جاہلوں میں سے ہے۔
اللہ کی قسم! عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت سنتے ہی اپنا قدم روک لیا، آپ رضی اللہ عنہ کتاب اللہ کے احکامات پر عمل پیرا رہنے والے تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔ صحیح البخاری مع فتح الباری: (4/304)
در حقیقت مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہیے، چنانچہ مسلمان خبیث منافقوں جیسا نہیں ہوتا کہ جب غصہ کرنے والے ایک منافق کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث صحابی نے پیش کی کہ تم تعوذ پڑھ لو، تو آگے سے منافق نے کہا: کیا میں پاگل ہوں؟ کیا میں دیوانہ ہوں؛ چلتا بن!۔
صحیح البخاری مع فتح الباری: (1/465)
10-غصے کے غلط نتائج سامنے رکھنا:
غصے کے متعدد منفی نتائج ہیں؛ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اور دوسروں کو غصے میں نقصان پہنچاتا ہے، غصے کی حالت میں انسان کی زبان بے لگام ہو جاتی ہے اور گالم گلوچ سمیت بد زبانی سے کام بڑھتے ہوئے دست درازی تک پہنچ جاتا ہے، اور کبھی انسان غصے میں قتل بھی کر بیٹھتا ہے، اسی سلسلے میں درج ذیل واقعہ سب کے لیے عبرت ناک ہے۔
علقمہ بن وائل کہتے ہیں کہ انہیں ان کے والد نے بتلایا کہ وہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص دوسرے آدمی کو بٹی ہوئی رسی سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہا: یا رسول اللہ ! اس شخص نے میرے بھائی کو قتل کر دیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا: کیا واقعی تم نے اسے قتل کیا ہے؟ تو اس شخص نے کہا: جی میں نے اسے قتل کیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: تم نے کیسے قتل کیا؟ تو اس نے بتلایا: میں اور وہ درخت سے پتے جھاڑنے کے لیے اس کی ٹہنیاں کاٹ رہے تھے، تو اس نے مجھے گالی دی، جس سے مجھے غصہ آیا اور میں نے اپنی کلہاڑی اس کے سر کے ایک طرف دے ماری، اور میں نے اسے قتل کر دیا۔۔۔ اس واقعے کو امام مسلم رحمہ اللہ (1307) نے بیان کیا ہے۔
غصے کی وجہ سے اس سے کم نقصان بھی ہو سکتا ہے کہ ہڈی ٹوٹ جائے یا زخم ہو جائے، اور اگر جس پر غصہ کر رہا ہے وہی ہاتھ سے بھاگ جائے تو ممکن ہے کہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائے کپڑے پھاڑ لے، یا رخساروں کو پیٹنا شروع کر دے، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے، یا گھر کے بھانڈے اور برتن توڑنا شروع کر دے، یا اپنا کوئی اور نقصان کر بیٹھے۔
غصے کی وجہ سے معاشرے میں جو سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، جس سے سماجی عدم توازن پیدا ہوتا ہے، خاندانی جڑیں تک کٹ جاتی ہیں وہ طلاق کی صورت میں ہے۔ آپ پوچھ کر دیکھ لیں کہ جو لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیتے ہیں انہوں نے کیسے اور کب طلاق دی تھی؟ سب ہی ایک جواب دیں گے کہ: میں غصے میں تھا اور طلاق دے دی!!
اس طلاق کی وجہ سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے بکھر جاتے ہیں، ندامت اور پشیمانی الگ، اور زندگی اجیرن بن جاتی ہے، یہ سب کچھ غصے کی وجہ سے ہے۔
اگر غصے کی حالت میں اللہ کو یاد کریں اور اپنے آپ پر قابو رکھیں، غصہ پی جائیں، شیطانی وار سے بچنے کے لیے اللہ تعالی کی پناہ حاصل کریں تو جو کچھ غصے میں عموماً ہوتا ہے وہ نہ ہو، لیکن جب انسان شریعت کی مخالفت کرے تو اس سے نقصان ہی ہوتا ہے۔
اسی طرح غصے کی وجہ سے جسمانی نقصان بھی بہت ہوتا ہے کہ اس سے طبی ماہرین کے مطابق خون کے لوتھڑے بن جاتے ہیں، خون کا پریشر زیادہ ہو جاتا ہے، دل کی دھڑکن غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتی ہے، اور سانس بھی پھولنے لگتا ہے، ان سب چیزوں کی وجہ سے مہلک ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے یا ذیابیطس وغیرہ کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں عافیت سے نوازے۔
11- غصہ کرنے والا شخص دورانِ غضب اپنے آپ کو ہی دیکھ لے۔
اگر غصہ کرنے والے شخص کے لیے کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ انسان غصے کی حالت میں اپنے آپ کو دیکھ لے تو یقیناً اسے اپنی غصے کی شکل و صورت اچھی نہ لگے، اسی طرح اگر وہ اپنے رنگ میں تبدیلی اور آواز کی شدت، اپنے کانپتے اعضا ، بگڑی شکل و صورت ، چہرے کی سرخی، اور آنکھوں کی لالی کے ساتھ غیر معمولی حرکات و سکنات دیکھ لے کہ وہ پاگلوں جیسی حرکتیں کر رہا ہے تو وہ خود اپنے آپ سے کراہت کرے گا، اور ظاہری شکل و صورت کی تبدیلی کو اچھا نہیں سمجھے گا۔ اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ ظاہری بد صورتی اندرونی خرابی سے کم ہوتی ہے۔ تو ایسے انسان سے شیطان کتنا خوش ہوتا ہو گا! ہم شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔
دعا:
دعا مومن کا دائمی ہتھیار ہے، چنانچہ مومن شخص ہمیشہ یہی دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہر قسم کے شر ، آفات، اور برے اخلاق سے بچائے، اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتا رہے کہ اسے غصے کی وجہ سے کسی قسم کے کفر ، یا ظلم سے دور کھے، ویسے بھی نجات کی باعث بننے والی تین چیزوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: خوشی اور غضب ہر حالت میں عدل کیا جائے۔ صحیح الجامع: (3039)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عمومی طور پر دعا ہوا کرتی تھی کہ: اَللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ ، أَحْيِنِيْ مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِيْ ، وَتَوَفَّنِيْ إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِيْ ، اَللَّهُمَّ إِنَّي أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، وَ أَسْأَلُكَ كَلِمَةَ الْحَقِّ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ ، وَأَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى ، وَأَسْأَلُكَ نَعِيْمًا لَا يَنْفَدُ ، وَ أَسْأَلُكَ قُرَّةَ عَيْنٍ لَّا تَنْقَطِعُ ، وَأَسْأَلُكَ الرِّضَى بَعْدَ الْقَضَاءِ ، وَأَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظْرِ إِلَى وَجْهِكَ ، وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ فِي غَيْرِ ضَرَّآءَ مُضِرَّةٍ ، وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ ، اَللَّهُمَّ زَيِّنَّا بِزِيْنَةِ الْإِيْمَانِ ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُهْتَدِيْنَ
ترجمہ: یا اللہ! میں تیرے علم غیب اور تیری مخلوقات پر قدرت کے واسطے سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک تیرے علم میں میرے لیے زندگی بہتر ہو، اور جب تیرے علم میں میری وفات بہتر ہو تو فوت کر لینا۔ یا اللہ! میں تجھ سے خلوت و جلوت میں تیری خشیت طلب کرتا ہوں۔ رضامندی اور غضب دونوں حالتوں میں کلمۂ اخلاص کا سوال کرتا ہوں۔ اور میں تجھ سے غربت اور امیری دونوں حالتوں میں میانہ روی کا سوال کرتا ہوں۔ اور میں تجھ سے نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں ، اور آنکھوں کی غیر منقطع ٹھنڈک مانگتا ہوں۔ اور میں تجھ سے تیرے فیصلوں پر رضامندی کا طلب گار ہوں۔ یا اللہ میں تجھ سے موت کے بعد والی اچھی زندگی کا سوالی ہوں۔ میں تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت چاہتا ہوں، اور تجھ سے ملنے کا شوق طلب کرتا ہوں کہ ہمیں بغیر کسی تکلیف اور گمراہ کن فتنے کے یہ نعمتیں عطا فرما۔ یا اللہ! ہمیں نعمتِ ایمان سے مزین کر دے، اور ہمیں ہدایت یافتہ بنا دے۔
اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔