الحمد للہ.
علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ جس نے كوئى عبادت كى اور وہ عبادت پورى ہو چكى ہو اور بعد ميں اسے شك پيدا ہو جائے كہ آيا اس نے اسے پورا كيا ہے يا نہيں ؟ اور يہ شك يقين كے مرتبہ تك نہ پہنچتا ہو تو يہ شك غير معتبر ہے، اور ان شاء اللہ اس كى وہ عبادت صحيح ہے.
اور خاص كر بہت شكوك كا مالك جب كوئى عبادت كرے تو اس طرح كے شخص كے ليے اپنے شكوك كى جانب متوجہ ہونا جائز نہيں، كيونكہ يہ شيطان كے ہتھكنڈے اور جال ہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" جب كوئى شخص طواف كر رہا ہو اور اسے طہارت ميں شك پيدا ہو جائے تو اس كا يہ طواف صحيح نہيں ہو گا؛ كيونكہ يہ طہارت اس عبادت كے ليے شرط ہے، فراغت سے قبل، تو يہ اسى طرح ہے جيسے كسى شخص كو دوران نماز طہارت ميں شك ہو جائے.
ليكن اگر شك عبادت سے فراغت كے بعد ہوا تو اس پر كچھ لازم نہيں آئے گا؛ كيونكہ عبادت سے فارغ ہو جانے كے بعد اس كى شرط ميں شك ہونا كوئى مؤثر نہيں ہوتا"
ديكھيں: المغنى ( 3 / 187 ).
زركشى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام شافعى رحمہ اللہ نے دوران فعل شك ہونے اور فعل مكمل ہونے كے بعد شك ہونے ميں فرق كيا ہے، اور دوسرے ميں شك ہونے ميں اس عمل كو دوبارہ كرنا واجب نہيں كيا؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں مشقت ہے، كيونكہ اگر نمازى كو ياد ركھنے كا مكلف كيا جائے تو كوئى بھى اس كى طاقت نہيں ركھے گا، اس ليے اس ميں نرمى كر دى گئى" انتہى
ديكھيں: المنثور فى القواعد الفقھيۃ ( 2 / 257 ).
مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
كيا ركعات يا طواف يا سعى مكمل ہونے كے بعد اس كے چكروں ميں شك كى طرف التفات كيا جائے گا ؟
اور اسى طرح وضوء ميں شك معتبر ہو گا يا نہيں ؟ يعنى كيا عبادت مكمل ہو جانے كے بعد شك كو اہميت حاصل ہے يا نہيں ؟
كميٹى كا جواب تھا:
طواف اور سعى اور نماز مكمل ہو جانے كے بعد شك ہونے ميں كوئى دھيان نہيں ديا جائے گا، كيونكہ عبادت كا سليم ہونا ظاہر ہے" انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 143 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:
ايك شخص كو نماز ميں بہت شكوك پيدا ہوتے ہيں، آپ كيا راہنمائى كرتے ہيں؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" كثرت شكوك كو ختم كرنا ضرورى ہے، اور اس كى جانب توجہ نہيں دينى چاہيے؛ كيونكہ يہ وسوسے والے شخص كو ہى پيدا ہوتے ہيں، اور پھر شيطان صرف اسے شكوك ميں ہى مبتلا كرنے پر اقتصار نہيں كرتا بلكہ اسے كئى دوسرے امور ميں بھى شك ميں مبتلا كرتا ہے، حتى كہ حالت يہاں تك پہنچ جاتى ہے كہ اسے توحيد اور اللہ تعالى كى صفات كے متعلق بھى وسوسے اور شك ميں مبتلا كر ديتا ہے، اور اسے بيوى كو طلاق اور اس كے ساتھ باقى رہنے كے متعلق بھى شكوك ميں مبتلا كر ديا ہے، اور ايسا انسان كى عقل اور اس كے دين كے ليے بہت ہى زيادہ خطرناك ہے"
اس ليے علماء كرام نے كہا ہے كہ: تين حالات ميں شكوك كى طرف توجہ نہيں دى جائيگى:
پہلى حالت:
صرف وہم ہو اور اس كى كوئى حقيقت نہ ہو، اسے كوئى اہميت نہيں دى جائيگى اورمطلقا چھوڑ ديا جائيگا.
دوسرى حالت:
شكوك كثرت سے پيدا ہونے لگيں: جب بھى انسان وضوء كرے اور نماز ادا كرے، يا پھر كوئى بھى كام كرے تو اس ميں اسے شك ہو جائے، تو يہ بھى چھوڑنا ضرورى ہے، اور اس كا بھى كوئى اعتبار نہيں كيا جائيگا.
تيسرى حالت:
جب عبادت ختم ہونے كے بعد شك پيدا ہو تو جب تك اس ميں يقين نہ ہو جائے اس وقت تك شك پر توجہ نہيں دى جائيگى.
اس كى مثال يہ ہے كہ: اگر كسى كو نماز ادا كرنے كے بعد شك ہو كہ اس نے تين ركعت ادا كى ہيں يا چار تو وہ اس شك كى طرف توجہ نہيں دے گا؛ كيونكہ وہ عبادت سے فارغ ہو چكا ہے، ليكن اگر اسے يقين ہو جائے كہ اس نے صرف تين ہى ركعت ادا كى ہيں تو پھر اگر وقت تھوڑا ہى گزرا ہو تو چوتھى ركعت ادا كر كے سجدہ سہو كرنا ہو گا، ليكن اگر وقت زيادہ گزر چكا ہو تو وہ دوبارہ سارى نماز ادا كرے گا" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 14 ) سوال نمبر ( 746 ).
واللہ اعلم .