الحمد للہ.
اول:
خاوند كے ليے جائز ہے كہ وہ اپنى بيوى كو اپنے مال ميں سے جو چاہے ہبہ كر دے، اور اس ميں بيوى اور اپنى اولاد كے مابين عدل كرنا واجب نہيں ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ ايسا كرنے ميں ورثاء كو نقصان اور ضرر دينے كا مقصد نہ ہو.
دوم:
اللہ سبحانہ وتعالى نے ماں اور باپ پر اپنى اولاد كو عطيہ دينے ميں عدل و انصاف كرنا واجب كيا ہے، اس ليے والدين كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى ايك بيٹے يا بيٹى كو دے اور باقى كو نہ دے، اور اگر وہ ايسا كريں تو پھر اس كا حل يہ ہے كہ يا تو وہ عطيہ واپس لے ليں، يا پھر باقى سب اولاد كو بھى اتنا ہى ديں تا كہ عدل و انصاف ہو سكے.
اور آپ كى والدہ نے آپ كے بھائى كو جو فليٹ اور دوكان، اور جگہ دى ہے وہ حرام امور ميں شامل ہوتا ہے، اس پر واجب ہے كہ وہ آپ كے درميان عدل و انصاف كرے.
نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ان كے باپ انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لائے اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ و سلم ميں نے اپنے اس بيٹے كو ايك غلام عطيہ كيا ہے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تم نے اپنے سب بيٹوں كو اسى طرح ہبہ كيا ہے ؟
تو انہوں نے جواب نفى ميں ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" اس سے واپس لے لو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2446 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1623 ).
اور بخارى شريف كى روايت كے الفاظ يہ ہيں:
تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اس سے ڈرو اور اپنى اولاد كے مابين عدل كرو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2587 ).
نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ ميرے والد نے اپنا عطيہ واپس لے ليا.
اور سوال نمبر ( 67652 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ: والدہ كے ليے اپنى اولاد كو كوئى چيز عطيہ يا ہبہ كرنے ميں عدل و انصاف كرنا واجب ہے، اور اس كے ليے عدل يہى ہے كہ وہ اپنى اولاد ميں سے بيٹے كو دو بيٹيوں جتنا عطيہ دے، كيونكہ اللہ تعالى كى تقسيم سے زيادہ عدل و انصاف والا نہيں.
واللہ اعلم .