سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

دوسرى شادى كى شديد ضرورت ہے ليكن ہو سكتا ہے اس سے پہلى بيوى كو طلاق دينى پڑ جائے

69800

تاریخ اشاعت : 20-01-2013

مشاہدات : 7051

سوال

ميرى عمر اڑتاليس برس ہے اور بيس برس سے شادى شدہ ہوں ميرے تين بچے بھى ہيں، ميرى بيوى ايك فاضلہ عورت ہے اللہ سبحانہ و تعالى نے مجھے اپنے فضل سے بہت نوازا ہے ميں اب كسى بھى مسلمان عورت سے دوسرى شادى كرنا چاہتا ہوں كہ يہ شادى زيادہ سے زيادہ فائدہ مند ہو يعنى كسى بيوہ عورت سے جس كے يتيم بچے ہوں، يا بانجھ مطلقہ عورت سے يا زيادہ عمر كى كنوارى عورت سے اور ايسى عورتيں بہت ہيں جن كى عمر شادى كى عمر سے زيادہ ہو چكى ہے اور ان كى شادى نہيں ہوئى.
مشكل يہ ہے كہ ميرى پہلى بيوى اعتراض كرتى اور طلاق كى دھمكى ديتى ہے، ميں اس بيوى كو چھوڑ كر اپنا نقصان نہيں كرنا چاہتا كيونكہ وہ بہت ديندار ہے اور دين كے سارے احكام پر عمل بھى كرتى ہے ليكن ايك سے زائد شادى كے موضوع ميں وہ بھى يہاں مصر ميں باقى عورتوں كى طرح برداشت نہيں كرتى.
يہ علم ميں رہے كہ مجھے دوسرى شادى كى بہت ضرورت ہے تا كہ عورتوں كے فتنہ سے محفوظ رہ سكوں برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ اس كے حل كے ليے بہتر طريقہ كيا ہے كہ ميرى پہلى بيوى سمجھ جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ و تعالى بيويوں كے نان و نفقہ اور لباس و رہائش اور رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف كرنے كى استطاعت ركھنے والے شخص كے ليے ايك سے زائد بيوياں ركھنا مباح كيا ہے، ليكن جو شخص عدل و انصاف كى استطاعت و قدرت نہيں ركھتا اس كے ليے ايك سے زائد بيوي ركھنا حرام قرار ديا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تمہيں خدشہ ہو كہ تم يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے عدل و انصاف نہيں كر سكوگے تو پھر اور عورتوں سے جو تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو تين تين چار چار، ليكن اگر تمہيں برابرى نہ كر سكنے كا خوف ہو تو ايك ہى كافى ہے، يا تمہارى ملكيت كى لونڈى يہ زيادہ قريب ہے كہ تم ظلم كرنے سے بچ جاؤ النساء ( 3 ).

تعولوا: كا معنى ہے كہ تم ظلم و ستم نہ كرو.

شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ آيت كريمہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ جس شخص كے پاس مكمل طور پر عورتوں كے حقوق ادا كرنے كى استعداد و استطاعت ہو تو اسے ايك سے زائد چار بيوياں تك كرنے كى اجازت ہے، اور جس شخص كے پاس استطاعت و استعداد نہيں تو وہ ايك بيوى ہى ركھے، يا پھر لونڈى پر گزارا كرے.

يہاں عدل سے مراد وہ عدل ہے جس كى استطاعت ہو جو كہ تقسيم اور نان و نفقہ اور رہائش ميں ہوگا، ليكن جس عدل كى استطاعت ہى نہيں وہ دل كى محبت ہے، جس كا ايك سے زائد بيويوں ركھنے كى ممانعت ميں كوئى دخل نہيں.

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 252 ).

عورت كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس كا اللہ سبحانہ و تعالى كے احكام ميں سے كسى حكم كو ناپسند كرنا بعض اوقات كفر بھى ہو سكتا ہے، يا پھر وہ اسے كفر كى حد تك لے جا سكتا ہے جس كى بنا پر دين اسلام سے ہى خارج ہو جائے.

شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

جو شخص خود بھى چار شادياں كرنا ناپسند كرے اور دوسروں كو بھى اسے ناپسند كرنے كى ترغيب دلائے ايسے شخص كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ كا جواب تھا:

" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے مشروع كردہ كو ناپسند كرے اور لوگوں كو اس سے نفرت دلائے، ايسا كرنا دين اسلام سے ارتداد كہلاتا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يہ اس ليے كہ انہوں نے اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا تو اللہ نے ان كے اعمال ضائع كر دے محمد ( 9 ).

چنانچہ معاملہ بڑ خطرناك ہے، اور اس كا سبب يہ ہے كہ ايسے لوگ كفار كى باتوں سے متاثر ہوتے ہيں، حالانكہ كفار كا تو كام ہى دين اسلام سے نفرت دلانا ہوتا ہے، اور وہ ايسے شبھات پيدا كرنے كى كوشش كرتے ہيں جو مسلمان كے ليے نقصان دہ ہوں اور بےوقوف قسم كے ايسے مسلمانوں ميں رواج پائيں جن پر دين اسلام كے احكام مخفى ہيں.

اور ان دينى احكام و قوانين ميں چار شادياں كرنا بھى شامل ہے، كيونكہ اس ميں مرد سے پہلے عورت كے ليے مصلحت پائى جاتى ہے "

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 251 ).

ليكن يہ لازم نہيں كہ جب خاوند دوسرى شادى كرنے لگے تو وہ غيرت كھاتے ہوئے يا پھر ناراض ہو كر وہ اس شرعى قانون كو ہى ناپسند كرنے لگے؛ بلكہ كچھ عورتيں تو ايسى بھى ہيں جنہيں يہ معلوم ہے كہ يہ چيز اللہ كى شريعت ميں سے ہے اور اللہ نے جو شريعت نازل كى ہے اس پر ايمان بھى ركھتى ہے اور اس كے دين كو بھى پسند كرتى ہے.

ليكن پھر وہ نفس كى كمزورى كى اور اللہ كى حلال كردہ كو حرام كيے يا پھر اس كى شريعت كو ناپسند كيے بغير خاوند كى ايك سے زائد شادياں كرنے كو ناپسند كرتى ہے.

خاوند كى جو يہ نيت ہے كہ وہ كسى بيوہ يا مطلقہ يا كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى شادى كى عمر جاتى رہى ہے اس پر اس كا مشكور ہونا چاہيے، يہ نيت قابل تعريف ہے، اور لوگوں كى جانب سے اسے ايسا كرنے كى ترغيب دلائى جانى چاہيے تھى، اور اسى طرح بيوى بھى اسے ابھارتى كہ تم ايسا ضرور كرو، كيونكہ يہ تو بہت ہى اچھے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے.

بيوى كو چاہيے كہ وہ جو كچھ اپنے ليے پسند كرتى ہے وہى دوسرے كے ليے بھى پسند كرے، وہ اپنے ليے تو پسند كرتى ہے كہ اس كا خاوند بھى ہو اور اولاد بھى، تو اسى طرح اسے يہ اپنے علاوہ كسى دوسرى عورت كے ليے پسند كرنا چاہيے.

بلكہ اگر اس كى بيٹى اس حالت ميں ہوتى جس ميں دوسرى خواتين ہيں تو وہ تمنا كرتى كہ كاش اس كا بھى كوئى خاوند ہو جو اس كى سترپوشى كرے چاہے وہ شادى شدہ ہى ہو، اور چاہے ايك سے زائد شاديوں والا ہى ہو، اس ليے اسے علم ہونا چاہيے كہ عورتوں اور ان كى ماؤں كا احساس اور جذبہ يہى ہوتا ہے.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ ايك سے زائد شادياں ہى اس مشكل كا حل ہے جو اس وقت مسلمان ممالك ميں بہت زيادہ پھيل چكى ہے كہ بہت سارى عورتيں شادى كى عمر سے تجاوز كر چكى ہيں، ليكن ان سے شادى كرنے والا كوئى نہيں، اور برے اخلاق اور تباہى والے حادثات كا سبب بن رہى ہيں.

شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" عورتوں ميں عنوسيت يعنى شادى كى عمر سے تجاوز كو ختم كرنے كے اسباب ميں ايك سے زائد شادياں كرنا شامل ہے؛ كہ كسى عورت كا ايسے شخص سے شادى كر لينا ہى بہتر ہے جو اس كى عفت و عصمت كى حفاظت كرتے اور اس سے اس كى اولاد بھى ہو چاہے وہ اس كى چوتھى بيوى ہى بن جائے غير شادى شدہ رہ كر شادى كى مصلحتوں سے محروم رہ كر فتنہ كا پيش خيمہ بن كر رہنے سے بہتر ہے.

اور ايك سے زائد شاديوں كى مشروعيت كى يہى ايك عظيم حكمت بھى ہے، اور پھر يہ چيز مرد كى بجائے عورت كے ليے زيادہ مصلحت والى ہے، اور ہو سكتا ہے عورت كو اپنى سوكن كے ساتھ رہنے ميں جو تنگى محسوس ہوتى ہو اس كے مقابلہ ميں شادى كى جو مصلحت اسے حاصل ہوگى وہ زيادہ راجح ہوگى.

اور پھر عقل و دانش ركھنے والا شخص تو مصلحت اور فساد و خرابى اور نفع و نقصان ميں مقارنہ و موازنہ كرتے ہوئے اس ميں جو راجح ہو اسے اختيار كرتا ہے، اور پھر اگر ايك سے زائد شاديوں ميں كوئى نقصانات پائے بھى جاتے ہوں تو اس كے مقابلہ ميں شادى كى مصلحت زيادہ راجح ہے.

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 168 ).

ايك عقلمند عورت كا كہنا ہے:

" جب ہر گھر ميں عنوسيت ( يعنى شادى كى عمر ڈھلنا ) پہنچ جائے تو ميں كبھى بھى اپنے خاوند كى راہ نہيں روكوں گى، بلكہ ميں خود اسے دوسرى شادى كے ليے تيار كروں گى كيونكہ ميرى دينى غيرت ميرى خاوند پر غيرت سے زيادہ ہے "

اور جب عورت نے عقد نكاح ميں اس كى شرط نہ ركھى ہو تو پھر خاوند كى دوسرى شادى كرنے سے اسے طلاق طلب كرنے كا حق حاصل نہيں ہے، اور اگر وہ ايسا كرتى ہے تو گنہگار ہوگى "

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى بغير كسى حرج كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1685 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہم عورت كو نصيحت كرتے ہيں بلكہ ہر اس عورت كو جس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے كہ پہلى بيوى كو اللہ كے حكم پر راضى ہونا چاہيے، اور اللہ تعالى سے دعا كرنى چاہيے كہ اس سلسلہ ميں اس كے دل ميں جو غيرت پائى جاتى ہے اسے ختم كر دے، اور اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اپنے خاوند كے پاس ہى رہنا چاہيے.

ہم آخر ميں خاوند كو بھى نصيحت كرتے ہيں كہ تم ايك گھر تباہ كر كے دوسرا مت بنانے كى كوشش كرو، اور دوسرى شادى مت كرو كہ اس كى قيمت پہلى بيوى كو طلاق دے كر ادا كرنا پڑے، دوسرى شادى كرنے ميں آپ كا مقصد تو بہت اچھا ہے، ليكن ہو سكتا ہے آپ كا يہ مقصد آسانى سے پورا نہ ہو سكے.

اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى پہلى بيوى كو بتدريج آہستہ آہستہ اس كے ليے تيار كريں، اور اس سلسلہ ميں اس كے ايمان كو قوى كرنے كے ليے آپ اس كے سامنے بہترين نمونے ركھيں، اور ايك سے زائد شادياں كر كے ان ميں عدل و انصاف قائم كرنے والے شخص كى مثال پيش كريں.

اور آپ اس سلسلہ ميں بيوى كو مطمئن كرنے سے قبل شادى كرنے كى جلدى مت كريں، ايك عورت جس كے خاوند نے شادى كى عمر ڈھل جانے والى عورت سے دوسرى شادى كر لى اور معاملات ميں پہلى بيوى كے ساتھ ظلم كيا تو وہ ايك صحافى عورت سے مخاطب ہو كر كہتى ہے:

" شادى كى عمر ڈھل جانے والى اور طلاق يافتہ عورتوں سے دوسرى شادى كرنا ہى اس مشكل كو حل كرنے كى رائے ركھنے والوں كے ليے تم ايسا كالم لكھو جس ميں ہو كہ: مرد حضرات جب عدل و انصاف كرنے سے عاجز ہو جاتے ہيں تو ايك عورت كى مشكل حل كر كے دوسرى كے ليے مشكل پيدا كرتے ہيں، اور دوسرى عورت كا گھر تباہ كر كے گھر بناتے پھرتے ہيں "

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق نصيب كرنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب