الحمد للہ.
اول:
جس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتى ہيں اس ميں دو شرطيں پائى جانى ضرورى ہيں:
پہلى شرط:
پانچ يا اس سے زيادہ رضعات ہونى چاہيں.
دوسرى شرط:
رضاعت دو برس كى عمر ميں دودھ چھڑانے سے قبل ہونى چاہيے.
ان دو شرطوں كى تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 40226 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
رضاعت ميں پيٹ بھرنا شرط نہيں، بلكہ بچے كا پستان منہ ميں ليے كر دودھ چوسنا اور پھر چھوڑ دينا رضاعت شمار ہو گا.
اور جب بچہ پستان منہ ميں ڈالے ليكن دودھ نہ نكلے تو يہ رضاعت نہيں ہوگى، اور نہ ہى اس كے نتيجہ ميں كوئى چيز مرتب ہوتى ہے.
الفتاوى الھنديۃ ميں درج ہے:
" كيونكہ جب بھى دودھ نكلا تو يہ رضاعت ہو گى اس كے بغير نہيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى الھنديۃ ( 1 / 104 ).
اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ ميں درج ہے:
" اور اگر آپ كى ماں نے آپ كے چچا كو چپ كرانے كے ليے پستان منہ ميں ڈالا اور اس كے پستان سے دودھ نہيں نكلا تو كوئى حرمت نہيں، اور شادى جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 52 ).
دوم:
جب رضاعت كى تعداد ميں يا پھر حصول رضاعت ميں شك پيدا ہو جائے تو اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں اپنى خالہ كى بيٹى سے شادى كرنا چاہتا ہوں، ليكن مشكل يہ ہے كہ ميرے اور اس كے درميان نانى كا دودھ پينے ميں شك ہے، ليكن نانى اس رضاعت ميں وثوق اور يقين نہيں ركھتى ہم نے ان سے دريافت كيا تو وہ كہتى ہيں:
مجھے معلوم نہيں ميں بھول چكى ہوں، اور اگر اس لڑكى نے مجھ سے رضاعت كى ہے تو اس وقت ميرا دودھ ہى نہيں تھا نانى كا قول يہى ہے.
برائے مہربانى آپ ميرے ليے اس مسئلہ ميں كوئى مناسب حل تلاش كريں، كيا نانى كے قول كے مطابق ميرى اس لڑكى سے شادى كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" اگر تو واقعہ ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں بيان ہوا ہے تو آپ خالہ كى مذكورہ بيٹى سے شادى كر سكتے ہيں؛ كيونكہ مشكوك رضاعت كى اس ميں كوئى تاثير نہيں، بلكہ حرمت تو معلوم رضاعت سے ہوتى ہے جب وہ پانچ مكمل رضاعت ہوں اور دو برس كى عمر كے اندر دودھ پيا جائے.
ليكن اگر ايسا نہيں اور رضاعت معلوم نہيں تو اس ميں اصل جواز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 133 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 804 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس بنا پر آپ كا وہ بھائى جس كى خالہ سے رضاعت ثابت ہے وہ آپ كى خالہ كا رضاعى بيٹا ہو گا، اور اس كى سارى اولاد كا رضاعى بھائى ہو گا.
ليكن آپ كے حق ميں حرمت ثابت نہيں كيونكہ رضاعت كے حصول ميں شك اور تردد پايا جاتا ہے.
واللہ اعلم.