جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عزت لوٹنے اور دست درازى كرنے كا حكم

72338

تاریخ اشاعت : 30-07-2007

مشاہدات : 11355

سوال

عورت كى عزت لوٹنے كا شرعى حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

الاغتصاب كا معنى:

كسى چيز كو ظلم اور زبردستى لينے كو عربى ميں اغتصاب كا نام ديا جاتا ہے، اور اس وقت يہ اصطلاع عورتوں كى زبردستى عزت لوٹنے ميں استعمال ہوتى ہے.

يہ ايك ايسا جرم ہے جو سب شريعتوں ميں قبيح اور حرام ہے، اور سب عقل و داش اور فطرت سليمہ ركھنے والے اسے حرام اور قبيح ہى گردانتے ہيں، اور اسى طرح سب زمينى قوانين اور نظاموں ميں بھى يہ جرم قبيح اور شنيع شمار ہوتا ہے، اور اس كے نتيجہ ميں سخت سے سخت سزا دى جاتى ہے، ليكن كچھ ملكوں ميں يہ سزا اس صورت ميں معاف ہو جاتى ہے جب دست درازى كى قربانى بننے والى عورت سے شادى كر لى جائے! اور يہ نظام اور قانون اللہ تعالى كے قوانين اور نظام كے مخالف قانون اور نظام بنانے والوں ميں قلت دين يا دين بالكل نہ ہونے اور فطرت كے خلاف فطرت كے الٹا پن، اور خلل عقل كى دليل ہے.

ہم نہيں جانتے كہ جلاد اور اس كى قربانى بننے والى عورت كے مابين كونسى محبت و مودت ہوگى، اور خاص كر اس دست درازى اور عزت لوٹنے كے عمل كو نہ تو ايام و ماہ اور سال محو كرينگے، اور نہ ہى اسے زمانہ اور وقت مٹائےگا ـ جيسا كہ كہا جاتا ہے ـ اس ليے جن عورتوں كى عزت لوٹى گئى اور دست درازى كر كے ان كى عزت كو تار تار كيا گيا ان ميں سے بہت سارى خودكشى كرنے كى كوشش كرتى ہيں، اور بہت سارى تو اس ميں كامياب بھى ہوجاتى ہيں، اور يہ ثابت ہو چكا ہے كہ اس طرح كى شادياں ناكام ہو جاتى ہيں، اور دست درازى كرنے والا شخص اس عورت كو ذليل و رسوا ہى كر كے رہى اپنے ساتھ ركھتا ہے.

اور اس شريعت مطہرہ كے لائق تھا كہ اس شنيع اور قبيح فعل كى حرمت ميں، اور اس كى مرتكب افراد كے ليے قابل عبرت سزا كے متعلق اس كا واضح اور صاف موقف ہو.

اور پھر اسلام نے تو وہ دروازے بھى بند كر ديے ہيں جس كے ذريعہ مجرم اپنے جرم كا ارتكاب كرتا ہے، يورپى سرچ نے يہ بات واضح كر دى ہے كہ عورتوں پر دست درازى كرنے اور انكى عزت تار تار كرنے والے اكثر افراد مجرم لوگ ہى ہوتے ہيں، اور وہ اپنا يہ شنيع فعل شراب نوشى اور دوسرى نشہ آور اشياء كے نشہ ميں دھت ہو كر ہى كرتے ہيں، اور وہ اپنے شكار كو الگ جگہ اكيلا جانے كو فرصت سمجھتے ہيں، يا پھر عورت كا اپنے گھر ميں اكيلا رہنا انہيں فرصت اور موقع ديتا ہے.

اور اسى طرح اس ريسرچ اور سروے سے يہ بھى واضح ہوا ہے كہ يہ مجرم قسم كے لوگ جو كچھ ٹى وى چينلوں اور انٹرنيٹ پر ديكھتے ہيں كہ عورت بن سنور كر اور تقريبا بےلباس ہو كر باہر نكلتى ہے، تو يہ سب كچھ انہيں اس جرم كے ارتكاب كا حوصلہ اور جرات ديتا ہے.

شريعت اسلاميہ نے ايسے قوانين بنائے ہيں جن كى بنا پر عورت كى عزت و عصمت اور حياء محفوظ رہتى ہے، اور وہ قوانين اسے اس كے منافى لباس زيب تن كرنے كى اجازت نہيں ديتے، اور اسے اكيلا اور بغير محرم سفر كرنے سے بھى منع كرتے ہيں، اور اجنبى اور غير محرم مرد سے مصافحہ كرنے سے منع كرتے ہيں.

اور پھر شريعت اسلاميہ نے نوجوان لڑكے اور نوجوان لڑكى كى شادى جلد كرنے پر ابھارا ہے، يہ سب كچھ ـ اور اس كے علاوہ باقى اسلامى قوانين ـ مجرموں كے ليے اپنا شكار جال ميں پھنسانے كے دروازے بند كرتا ہے، اسى ليے جب ہم يہ سنتے يا پڑھتے ہيں كہ اس طرح كے اكثر جرائم فحش معاشرے ميں ہوتے ہيں، اور اس معاشرے كے لوگ مسلمان عورتوں سے بھى يہى چاہتے ہيں كہ وہ ترقى ميں ان كى طرح ہو جائيں!

چنانچہ مثال كے طور پر امريكہ ميں انٹرنيشنل معافى كميٹى نے ( 2004 ميلادى ) كى اپنى سالانہ رپورٹ " عورت كے خلاف سازش بند كرو " كے عنوان ميں يہ بيان كيا ہے كہ ہر نوے ( 90 ) سيكنڈ يعنى ڈيرھ منٹ ميں يہاں ايك عورت كى عزت لوٹى جاتى ہے! تو يہ لوگ كونسى حياء كى زندگى بسر كر رہے ہيں ؟! اور يہ كونسى ترقى حضارت ہے جسے وہ مسلمان عورتوں ميں داخل كرنے كى كوشش كر رہے ہيں ؟!

دوم:

اور شريعت اسلاميہ ميں عزت لوٹنے كى سزا يہ ہے كہ:

غاصب اور عزت لوٹنے والے شخص پر زنا كى حد جارى ہوتى ہے، اگر وہ شادى شدہ ہے تو اسے رجم كيا جائيگا، اور اگر وہ شادى شدہ نہيں تو پھر اسے سو كوڑے لگا كر ايك برس كے ليے جلاوطن كيا جائيگا.

اور بعض علماء كرام تو اس پر يہ بھى واجب كرتے ہيں كہ وہ عورت كو مہر بھى ادا كرے.

امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہمارے ہاں تو عزت لوٹنے والے شخص كے بارہ ميں حكم يہ ہے اگر عورت آزاد ہے تو پھر وہ مہر مثل دےگا، چاہے عورت كنوارى ہو يا شادى شدہ، اور اگر وہ لونڈى ہے تو اس كى جتنى قيمت كم ہوئى وہ ادا كرنا ہو گى، اور عزت لوٹنے والے پر ہى حد جارى ہوگى، اور اس سارے مسئلہ ميں جس عورت كى عزت لوٹى گئى اس كو كوئى سزا نہيں " انتہى.

ديكھيں: الموطا ( 2 / 734 ).

شيخ سليمان الباجى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جس عورت پر زبردستى كى گئى ہو اگر تو وہ آزاد ہے تو جس نے اس كى عزت لوٹى اسے اس كا مہر مثل ادا كرنا ہوگا، اور عزت لوٹنے والے پر حد لگائى جائيگى، امام شافعى رحمہ اللہ كو قول اور ليث رحمہ اللہ يہى مسلك ہے، اور على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى سے مروى ہے.

اور امام ابو حنيفہ اور امام ثورى رحمہما اللہ كہتے ہيں: اس پر حد جارى ہو گى، ليكن مہر نہيں ہے.

ہمارے قول كى دليل يہ ہے كہ:

حد اور مہر يہ دونوں حق ہيں، ايك حق تو اللہ تعالى ہے، اور دوسرا حق مخلوق كا ہے، تو اس طرح جائز يہ ہوا كہ يہ دونوں جمع ہوں، جس طرح كہ چورى ميں ہاتھ كاٹنا اور چورى كا سامان واپس كرنا ہوتا ہے. انتہى.

ديكھيں: المنتقى شرح الموطا ( 5 / 268 - 269 ).

اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ دست درازى كر كے عزت لوٹنے والے شخص پر حد جارى ہوگى اگر اس پر حد واجب ہونے كى گواہى مل جائے، يا وہ خود اقبال جرم كر لے، اور اگر ايسا نہ ہو تو اس كو سزا دى جائيگى، ( يعنى جب چار گواہ نہ ہونے، اور اقبال جرم نہ ہونے كى وجہ سے اس پر حد ثابت نہ ہوتى ہو، تو حكمران اور قاضى اسے اتنى سزا ضرور ديگا جس سے اس طرح كے جرم كا سد باب ہو اور آئندہ كوئى اور نہ كرے ) اور اگر يہ صحيح طور پر ثابت ہو جائے كہ عورت كى عزت زبردستى لوٹى گئى ہے، اور اس كى چيخ و پكار اور مدد طلب كرنے كے باوجود مرد اس پر غالب آ گيا تھا تو عورت پر سزا نہيں ہو گى " انتہى.

ديكھيں: الاستنكار ( 7 / 146 ).

سوم:

اور زبردستى عزت لوٹنے والے شخص كو زنا كى حد كا لگانا اس وقت ہے جب اس نے اسلحہ كے زور پر عزت نہ لوٹى ہو، ليكن اگر اس نے اسلحہ كے زور پر عورت كى عزت لوٹى تو پھر وہ محارب شمار ہوگا، اور اس پر درج ذيل آيت ميں مذكور حد لگائى جائيگى:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

نہيں سوائے اس بات كے كہ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ كرتے ہيں، اور زمين ميں فساد مچانے كى كوشش كرتے ہيں انہيں يا تو قتل كر ديا جائے، يا پھر انہيں سولى پر چڑھا ديا جائے، يا پھر ان كے الٹ ہاتھ اور پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ ان كے ليے دنيا ميں ذلت ہے، اور انہيں آخرت ميں بہت زيادہ عذاب ہو گا المآئدۃ ( 33 ).

چنانچہ حكمران اور قاضى اس آيت ميں مذكور ان چار سزاؤں ميں سے جسے مناسب سمجھے اور جس ميں مصلحت ہو جس كى بنا پر معاشرے ميں امن و سلامتى پھيل سكتى ہو، اور ظالموں اور فساديوں كو ان كے جرائم سے روك سكتى ہو اختيار كر سكتا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ ( 41682 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب