الحمد للہ.
يہ بالكل اور بعينہ سود ہے، كسى بھى حالت ميں يہ جائز نہيں، كيونكہ قرض كى غرض اور مقصد مسلمان شخص كى مصلحت اور اسے آسانى فراہم كرنا ہے، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
" باشبہ صدقہ دو بار صدقہ كى جگہ ہے"
لہذا جب ايك برس كے ليے بنك آپ كو ايك ملين كى رقم دے تو ايك برس گزرنے كے بعد آپ قرض ليا ہوا ايك ملين واپس كريں اور اس قرض كے بدلے ميں ايك ملين زيادہ ديں جو ان كے پاس ايك برس تك رہے، تو بالاتفاق مسلمانوں كے ہاں يہ حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" ہر وہ قرض جو نفع لائے وہ سود ہے"
بغوى نے ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے.
تو بنك نے آپ كو ايك ملين اس شرط پر ديا ہے كہ آپ اس كے حق سے زيادہ ايك ملين كى رقم ديں تا كہ وہ اس سے خريد و فروخت كرسكے، اور اس سے حاصل ہونے والا نفع اس ( بنك ) كے ليے خاص ہو گا، تو اس شرط نے نفع كھينچا ہے، اور مسلمانوں كے اتفاق سے يہ شرط باطل ہے، لہذا ميرے بھائى آپ صرف بنك كو ايك ملين كى ہى رقم ادا كريں جو آپ نے بطور قرض حاصل كى ہے، اور اسے ايك برس تك كے ليے ايك ملين كى زيادہ رقم بالكل نہ ديں، كيونكہ علماء كرام كے اتفاق سے ايسا كرنا جائز نہيں.
لہذا بنك كو صرف اس كى رقم ہى واپس كى جائيگى كيونكہ اللہ تعالى فرماتا ہے:
اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور اگر تم مومن ہو تو جو سود باقى بچ گيا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سے جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو تمہارے ليے تمہارے اصل مال ہيں، نہ تو تم ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے گا البقرۃ ( 278 - 279 ) .