الحمد للہ.
زمانےيا جگہ يا حالات مختلف ہونےسے اللہ تعالي كےدين ميں سے كچھ بھي ساقط نہيں ہوتا نہ تو احكام وراثت ساقط ہوتے ہيں اور نہ ہي اس كے علاوہ كوئي اور حكم ، اللہ تعالي كا دين ہردور ، ہر جگہ ميں عرب اور عجم ان كے مردوں اور عورتوں وہ فقير ہوں يا مالدار ديہاتي ہوں يا شہري سب كے ليےموزوں اور صالح ہے اس ميں سب يكساں وبرابر ہيں .
جب اللہ تعالي نے سورۃ النساء ميں وراثت كا ذكر كيا تو آيت ميں آخر ميں ارشاد فرمايا :
يہ حصے اللہ تعالي كي طرف سے مقرر كردہ ہيں بلاشبہ اللہ تعالي پورے علم والا اور كامل حكمتوں والا ہے النساء ( 11 )
امام ابن كثير رحمہ اللہ تعالي اس آيت كي تفسير ميں فرماتےہيں :
يہ اللہ تعالي كي جانب سے فرض كردہ ہيں جس كا فيصلہ اللہ تعالي نے كيا اور اس كا حكم ديا ہے ، اور اللہ سبحانہ وتعالي علم وحكمت والا ہے جو ہر چيز كو اس كي جگہ پر ركھتا اور ہر ايك كووہي عطا كرتا ہے جس كا وہ حسب حال مستحق ہوتا ہے ، اسي ليے اللہ تعالي نےفرمايا:
بلاشبہ اللہ تعالي پورے علم والا اور كامل حكمتوں والا ہے النساء ( 11 ) تفسير ابن كثير ( 1 / 500 )
پھر اللہ تعالي نے وراثت كےاحكام كےمتعلق فرمايا :
{يہ اللہ تعالي كي جانب سے مقرركردہ حديں ہيں اور جوكوئي بھي اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم كي اطاعت وفرمانبرداري كرےگا اللہ تعالي اسے ايسي جنتوں ميں داخل كرےگا جس كےنيچے سے نہريں جاري ہونگي جن ميں وہ ہميشہ رہيں گے اور يہ بہت بڑي كاميابي ہے .
اور جوكوئي بھي اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم كي نافرماني كرے اور اس كي مقرر كردہ حدوں سےتجاوز كرے اللہ تعالي اسے جہنم ميں پھينكےگا جس ميں وہ ہميشہ رہےگا اور اس كے ليے ذلت ورسوائي والا عذاب ہے} النساء ( 13- 14 )
لھذا اللہ تعالي نے اس آيت كريمہ ميں يہ فيصلہ صادر كرديا ہےكہ : شريعت كےتقاضہ كےمطابق وراثت ميں عمل نہ كرنااللہ تعالي كي حدود سے تجاوز ہے اور ايسا كام كرنےوالا ابدي جہنمي ہے اور اسے ذلت ورسوائي والا عذاب ديا جائےگا .
اللہ تعالي آپ پر رحم كرے آپ كےعلم ميں ہونا چاہيے كہ وراثت علم كا نصف ہے جيسا كہ بعض علماء كرام كا بھي يہي كہنا ہے حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالي بيان كرتے ہيں :
ابن عيينہ رحمہ اللہ تعالي كا قول ہے : علم فرائض كو نصف علم اس ليے كہا جاتا ہے كہ اس ميں سب لوگ مبتلا ہوتے ہيں . تفسير ابن كثير ( 2 / 497 )
دوم :
جب آپ كےنزديك راجح يہ ہو كہ نماز ترك كرنےوالا كافر اور مرتد ہے - اور انشاء اللہ راجح بھي يہي ہے - تو كافر كےليے مسلمان كےمال ميں سے وراثت لينا جائزنہيں ، اور نہ ہي مسلمان كےليے جائز ہے كہ وہ كافر كےمال سے كچھ بھي وراثت ميں حاصل كرے .
اسامہ بن زيد رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا :
مسلمان كافر كا اور كافر مسلمان كا وارث نہيں ہے . صحيح بخاري ( 6383 ) صحيح مسلم ( 1614 ) .
اس بنا پر بےنماز نمازي كا وارث نہيں ہوگا اور اسي طرح نمازي بھي بے نماز كا وارث نہيں .
سوم :
يہ تصديق كرلينا ضروري ہے كہ وہ تارك نماز بالكل نماز ادا نہيں كرتا يا وہ بعض فرضي نماز كي ادائيگي كرتا اور بعض نمازيں چھوڑتا ہے ، لھذا اگر دوسري قسم ميں يعني كچھ نمازيں ادا كرتا اور كچھ ترك كرتا ہے تو وہ كافر نہيں ہوگا ، اس ليےكہ كافر وہ شخص ہے جونماز بالكل ادا نہيں كرتا اور قطعا تارك نماز ہو .
چہارم :
پيچھےجوكچھ بيان ہوا ہے اس سے يہ ظاہر ہوا كہ وراثت ميں اللہ تعالي كي حدود كا قيام ہر حالت ميں واجب ہے چاہے خاندان كےسب افراد اس حكم كو قبول كريں يا خاندان كےبعض افراد اس ليے كہ اللہ تعالي كا حكم ثابت ہے .
اور يہ علم ہونا چاہيےكہ جوكوئي بھي اللہ تعالي كا حكم قبول نہ كرے اور اس پر راضي نہ ہو وہ كافر ہے وہ اپنے قريبي مسلمان كي وراثت ميں سےكچھ بھي حاصل نہيں كرسكتا ، اس كے اللہ تعالي كےحكم پرناراضگي اور اعتراض اور اس كےكفر كي بنا پر اس كا قريبي مسلمان شخص بھي اس كا وارث نہيں ہوگا .
واللہ اعلم .