الحمد للہ.
ميرے سائل بھائى آپ كے ليے ضرورى ہے كہ ان تصاوير كو فورا زائل اور ختم كر ديں، كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تصاوير بنانے اور ركھنے كے متعلق بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، اسى سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كو حكم ديتے ہيں ہوئے فرمايا:
" تم ہر تصوير كو مٹا دو، اور جو قبر ملے اسے زمين كے ساتھ برابر كر دو "
صحيح مسلم ( 1 / 66 ).
گھر وغيرہ ميں ذى روح كى تصاوير لٹكانے سے وہاں رہنے والوں سے اللہ كے فضل عظيم سے محروم ہو جاتے ہيں، وہ يہ كہ اس گھر ميں فرشتے ہى داخل نہيں ہوتے.
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس گھر ميں مجسمہ يا تصوير ہو وہاں فرشتے داخل نہيں ہوتے "
اسے امام احمد نے روايت كيا ہے، اور يہ صحيح الجامع حديث نمبر ( 1961 ) ميں بھى ہے.
اگر آپ چاہيں تو ان تصاوير كے بدلے دوسرى تصاوير جو ذى روح كى نہ مثلا درخت اور پہاڑ اور سمندر اور قدرتى مناظر كى تصاوير ميں بدل سكتے ہيں، يا دوسرے نقشہ جات وغيرہ جن ميں ذى روح كى تصوير نہ ہو وہ لگا سكتے ہيں، ليكن اس ميں بھى اسراف اور فضول خرچى نہيں ہونى چاہيے.
اور جو تصاوير لٹكا ركھى ہيں انہيں مٹانا اور زائل كرنا يا پر اس ميں تبديلى كرنا ضرورى ہے، اور انہيں محفوظ كر كے اورسنبھال كر ركھنا جائز نہيں، اور يہاں ايك بات قابل ذكر ہے كہ فوت شدگان كى تصاوير ركھنا اور لٹكانا غم اور پريشانى ميں مزيد اضافہ كے علاوہ كچھ نہيں، اور بلا فائدہ ہيں، بلكہ ہو سكتا ہے يہ ان كى تعظيم كى طرف لے جائے جو كہ توحيد كے منافى ہے.
اور ہميں يہ نہيں بھولنا چاہيے كہ نوح عليہ السلام كى قوم ميں جو شرك پھيلا تھا اس سبب بھى تصاوير لٹكانا تھا، انہوں نيك و صالح افراد كى تصاوير لٹكا ركھى تھيں، اس ليے اس سے جتنا بھى اجتناب كيا جائے بہتر ہے، اللہ تعالى ہميں اور آپ كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جس ميں اس كى رضا و خوشنودى ہو، اور بخشش و معافى كا باعث ہوں.
اللہ تعالى ہى زيادہ علم ركھنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .