الحمد للہ.
اول:
دم مسفوع ( بہنے والا خون ) حرام اور نجس اشياء ميں سے ہے، اس كے متعلق كتاب و سنت اور اجماع سے دلائل ملتے ہيں.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجيے ميرى طرف جو احكام وحى كيے گئے ہيں ميں تو اس ميں كسى بھى كھانے والے پر كوئى چيز حرام نہيں پاتا جو اسے كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا بہتا ہوا خون، يا خنزير كا گوشت، كيونكہ وہ بالكل ناپاك اور نجس ہے، يا وہ فسق ہے جسے غير اللہ كے ليے نامزد كيا گيا ہو، پھر وہ شخص جو مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو وہ طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا ہو تو واقعى آپ كا رب بخشنے والا رحم كرنے والا ہے الانعام ( 145 ).
امام طبرى رحمہ اللہ تعالى " جامع البيان " ميں رقمطراز ہيں:
الرجس: نجس اور بدبودار كو كہتے ہيں. انتہى
ديكھيں: جامع البيان ( 8 / 53 ).
سنت نبويہ كى دليل ميں ايك دليل درج ذيل حديث ہے:
اسماء بنت ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ: ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنے لگى ہم عورتوں ميں سے كسى ايك كے لباس كو حيض كا خون لگ جائے تو وہ كيا كرے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: وہ اسے كھرچ كر پانى كے ساتھ مل كر دھو لے اور پھر اس ميں نماز ادا كر لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 227 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 291 ).
امام بخارى رحمہ اللہ اس حديث پر باب باندھتے ہوئے كہتے ہيں: خون دھونے كے متعلقہ باب، اور امام نووى رحمہ اللہ نے اس پر باب كچھ اسطرح باندھا ہے: خون كے نجس ہونے اور اسے دھونے كى كيفيت كے متعلق باب.
اجماع كى دليل:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مسلمانوں كے اجماع كے مطابق خون نجس اور ناپاك ہے " انتہى.
امام قرطبى نے بھى اسے اپنى تفسير ميں اور بدايۃ المجتھد ميں ابن رشد نے بھى ذكر كيا ہے.
ديكھيں: تفسير قرطبى ( 2 / 210 ) بدايۃ المجتھد ( 1 / 79 ).
دوم:
بعض احاديث ميں ذكر ملتا ہے كہ كچھ صحابہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون پيا تھا، اور بعض روايات ميں يہ بھى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس پر كچھ نہيں كہا، اور بعض احاديث ميں يہ ذكر ملتا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے اس فعل كا انكار كرتے ہوئے ايسا نہ كرنے كا كہا تھا، ليكن جو الفاظ سوال ميں بيان كيے گئے ہيں " تيرے اندر نبوت سرايت كر گئى ہے " مجھے تو كسى بھى روايت ميں نہيں ملے.
ذيل ميں ہم يہ احاديث اور ان كا حكم بيان كرتے ہيں:
1 - عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سنگى لگائى جا رہى تھى، جب وہ سنگى لگوانے سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
جاؤ جا كر اس خون كو بہا دو تا كہ اسے كوئى بھى نہ ديكھ سكے، جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دور ہوئے تو انہوں نے خون پى ليا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: عبد اللہ تو نے كيا كيا ؟
وہ كہنے لگے: ميں اسے اس جگہ چھپايا ہے جس كے متعلق ميرا خيال ہے كہ وہاں سے لوگ ديكھ ہى نہيں سكتے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: لگتا ہے تم خون پى گئے ہو.
وہ كہنے لگے: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم نے خون كيوں پيا ؟! تيرى طرف سے لوگوں كوويل اور ہلاكت اور لوگوں كى طرف سے تيرے ليے ہلاكت اور ويل ہے "
اسے ابن عاصم نے الاحاد والمثانى ( 1 / 414 ) اور مسند بزار ( 6 / 169 ) مستد رك حاكم ( 3 / 638 ) اور البيھقى نے سنن الكبرى ( 7 / 67 ) ميں ليكن بيہقى كے الفاظ يہ ہيں:
" اس سے جو تيرى امت تجھ سے پائےگى "
اور ابن عساكر نے تاريخ دمشق ( 28 / 163 ) ميں سب نے ہى ھنيد بن القاسم نے عامر بن عبد اللہ بن الزبير عن ابيہ سے روايت كيا ہے.
ھنيد بن قاسم كا ترجمہ تاريخ كبير ( 8 / 249 ) اور الجرح والتعديل ( 9 / 121 ) مذكور ہے جس ميں نہ تو كوئى جرح كى گئى اور نہ ہى تعديل بيان ہوئى ہے، اور ابن حبان نے الثقات ( 5 / 515 ) ميں ذكر كيا ہے، اور اس سے موسى بن اسماعيل كے علاوہ كسى اور نے روايت نہيں كى.
تو اس طرح كا راوى مجہول لوگوں ميں شمار كيا جاتا ہے، ليكن اگر اس كى متابعت ہو يا كوئى اس كا شاہد مل جائے تو اسے تقويت مل جائيگى بعض اہل علم سے اس كى توثيق اور حديث قبول كرنے كا ذكر بھى ملتا ہے.
حافظ ابن حجر نے " التلخيص الحبير " ميں كہا ہے:
" اور اس كى سند ميں ھنيد بن قاسم ہے جو لاباس بہ ہے، ليكن علم ميں وہ مشہور نہيں ہے " انتہى.
ديكھيں: التلخيص الحبير ( 1 / 30 ).
اور امام ذہبى رحمہ اللہ " سير اعلام النبلاء " لكھتے ہيں:
" ھنيد بن قاسم كے متعلق مجھے كسى جرح كا علم نہيں " انتہى.
ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 3 / 366 ).
اس حديث كے اور بھى كئى ايك طريق ہيں، جسے دار قطنى ( 1 / 228 ) اور ابن عساكر نے تاريخ دمشق ( 28 / 162 ) ميں درج ذيل طريق سے روايت كيا ہے:
محمد بن حميد ثنا على بن مجاھد ثنا رباح النوبى ابو محمد مولى آل الزبير عن اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ عنہا:
اسماء رضى اللہ تعالى عنہا نے حجاج كے سامنے عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہ كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون پينے والا قصہ بيان كيا اس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى ہے: آگ نہيں چھوئےگى "
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " التلخيص الحبير ميں كہتے ہيں:
" اوراس ميں على بن مجاھد ہے جو كہ ضعيف ہے " انتہى.
ديكھيں: التلخيص الحبير ( 1 / 31 ).
اور يہ على بن مجاھد كابلى ہے، اسے يحي بن ضريس اور يحي بن معين نے جھوٹا كہا ہے، جيسا كہ ميزان الاعتدال ميں مذكور ہے.
اور تقريب التھذيب ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس كے متعلق كہتے ہيں:
متروك من التاسعۃ، يہ متروك ہے اور نويں درجہ سے ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ كے شيوخ ميں اس سے زيادہ ضعيف شخص كوئى اور نہيں ہے "
اور اس روايت ميں رباح النوبى بھى ہے جس كے متعلق حافظ ابن حجر كہتے ہيں:
بعض نے اسے لين كہا ہے اور يہ علم ہى نہيں يہ شخص كون ہے "
ديكھيں: لسان الميزان ( 2 / 443 ).
اور عظيم آبادى نے بھى المغنى كى تعليق ميں يہى دونوں علتيں بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
قولہ: على بن مجاھد حدثنا رباح النوبى، يہ دونوں ضعيف ہيں اور قابل حجت نہيں .
ديكھيں: التعليق المغنى ( 1 / 425 ).
اور طريق ميں محمد بن حميد الرازى بھى ضعيف راوى ہے جيسا كہ تقريب التھذيب وغيرہ ميں ہے.
جيسا كہ اسے جزء الغطريق ميں روايت كيا گيا ہے ـ اسى طرح ابن حجر نے الاصابۃ فى تميز الصحابۃ ( 4 / 93 ) اور التلخيص الحبير ( 1 / 32 ) ميں كہا ہے، اور اسى طريق سے ابن عساكر نے تاريخ دمشق ( 28 / 162 ) ميں روايت كيا ہے.
عن ابى خليفۃ الفضل بن الحباب نا عبد الرحمن بن المبارك نا سعد ابو عاصم مولى سليمان بن على عن كيسان مولى عبد اللہ بن الزبير قال اخبرنى سلمان الفارسى:
اور انہوں نے يہ قصہ بيان كيا اوراس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عبد اللہ بن الزبير رضى اللہ تعالى عنہ كو " لاتمسك النار الا قسم اليمين " كے الفاظ بھى ہيں.
تو ان مجموعى روايات سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ عبد اللہ بن الزبير رضى اللہ تعالى عنہ كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون پينے والے واقعہ كى كچھ نہ كچھ تو اصل ہے.
واللہ تعالى اعلم.
2 - رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے غلام سفينۃ:
عن بريہ بن عمر بن سفينۃ عن ابيہ عن جدہ كى سند سے روايت ہے:
بريہ بن عمر بن سفينہ اپنے باپ اور دادا سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سنگى لگوائى پھر مجھے كہنے لگے: يہ خون لے جاؤ اور جانوروں اور پرندوں سے بچا كر اسے دفنا دو، يا يہ فرمايا كہ لوگوں اور جانوروں سے بچا كر اسے دفنا دو، وہ كہتے ہيں تو ميں نے ان سے چھپ كر خون پى ليا، راوى كہتے ہيں: پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھ سے دريافت كيا تو ميں نے انہيں بتايا كہ ميں نے خون پى ليا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسكرانے لگے "
اسے امام بخارى نے تاريخ الكبير ( 4 / 209 ) اور ابن عدى نے الكامل ( 2 / 64 ) اور امام بيھقى نے سنن الكبرى ( 7 / 67 ) اور طبرانى ميں المعجم الكبير ( 7 / 81 ) ميں روايت كيا ہے.
ان سب نے ابن ابى فديك عن بريہ بن عمر بن سفينۃ عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے ہى روايت كيا ہے، اس كے متعلق ابن كثير رحمہ اللہ " الفصول فى السيرۃ " ميں كہتے ہيں:
" بريہ جس كا نام ابراہيم ہے كى بنا پر يہ حديث ضعيف ہے، كيونكہ ابراہيم بہت ہى زيادہ ضعيف راوى ہے " انتہى.
ديكھيں: الفصول فى السيرۃ ( 300 ).
شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ ميں لكھتے ہيں:
يہ سند دو علتوں كى بنا پر ضعيف ہے:
پہلى علت:
عمر بن سفينۃ كے متعلق امام ذہبى ميزان الاعتدال ميں كہتے ہيں: لا يعرف، اسے كوئى پہچانتا ہى نہيں، اور ابو زرعۃ نے اسے صدوق كہا ہے، اور امام بخارى نے كہا ہے اس كى سند مجھول ہے.
اور امام عقيلى نے اسے الضعفاء ميں ذكر كيا اور كہا ہے:
حديث غير محفوظ و لا يعرف الا بہ"
ديكھيں: الضعفاء للعقيلى ( 282 ).
دوسرى علت:
اس كا بيٹا بُرَيہ ـ تصغير كے ساتھ ـ اس كا نام ابراہيم ہے اسے بھى امام عقيلى نے الضعفاء ميں ذكر كيا اور كہا ہے: اس كى حديث پر متابعت نہيں كى جاتى.
ديكھيں: الضعفاء للعقيلى ( 61 ).
اور ابن عدى " الكامل ( 2 / 64 ) ميں لكھتے ہيں:
" ميں نے جو ذكر كى ہيں اس كے علاوہ بھى اس كى كچھ احاديث ہيں، مجھے تو اس كے متعلق كلام كرنے والوں كى كوئى كلام نہيں ملى، اور اس كى احاديث كى ثقات پر متابعت نہيں ، مجھے اميد ہے كہ اس ميں كوئى حرج نہيں"
اور الميزان ميں امام ذہبى كہتے ہيں:
اسے دار قطنى نے ضعيف قرار ديا ہے، اور ابن حبان كہتے ہيں: يہ قابل حجت نہيں، اور ان كا يہ بھى كہنا ہے: بٌرَيہ اپنے باپ سے منكر احاديث بيان كرنے ميں متفرد ہے.
اس حديث كو عبد الحق الاشبيلى نے " الاحكام " ميں ضعيف قرار ديا ہے، اور التلخيص ميں حافظ ابن حجر اس پر خاموش رہے ہيں تو انہوں نے اچھا نہيں كيا "
علامہ البانى كى كلام ختم ہوئى.
ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 1074 ).
3 - نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے حجام سالم ابو ھند:
حافظ ابن حجر كہتے ہيں:
" اسے ابو نعيم نے معرفۃ الصحابہ ميں سالم ابى ھند الحجام سے روايت كيا ہے وہ كہتے ہيں:
ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سنگى لگائى اور جب فارغ ہوا تو اسے پى ليا، تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے تو اسے پى ليا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" سالم تيرے ليے افسوس ہے، كيا تجھے علم نہيں كہ خون حرام ہے آئندہ ايسا نہ كرنا "
اس كى سند ميں ابو الحجاف ہے جس كے متعلق جرح كى گئى ہے " انتہى.
ديكھيں: التلخيص الحبير ( 1 / 30 ).
4 - كسى قريشى شخص كا غلام:
نافع ابو ھرمز عطاء سے بيان كرتے ہيں وہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك قريشى شخص كے غلام نے سنگى لگائى اور جب سنگى سے فارغ ہوا تو اس نے خون ليا اور ديوار كے پيچھے جا كر دائيں بائيں ديكھا تو اسے كوئى نظر نہ آيا تو اس نے خون پى ليا پھر واپس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے چہرے كو ديكھا اور فرمانے لگے: تيرے ليے افسوس ہے تو نے خون كا كيا كيا؟
تو ميں نے عرض كيا: ميں نے اسے ديوار كے پيچھے جا كر غائب كر ديا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: تم نے اسے كہاں غائب كيا ہے ؟
ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے آپ كا خون زمين پر بہانا پسند نہيں كيا، اس ليے وہ ميرے پيٹ ميں ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: جاؤ تم نے اپنے آپ كو جہنم سے محفوظ كر ليا ہے.
ابن حبان نے كتاب المجروحين ميں نافع ابى ھرمز كے ترجمہ ميں اسے ذكر كيا اور كہا ہے: عطاء نے اس سے موضوع نسخہ روايت كيا ہے، اور اس ميں سے يہ حديث بھى ذكر كى ہے.
ديكھيں: كتاب المجروحين ابن حبان ( 3 / 59 ).
5 - ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ كے والد مالك بن سنان رضى اللہ عنہ.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " التلخيص الحبير " ميں كہتے ہيں:
اس باب ميں ايك مرسل حديث ملتى ہے جسے سعيد بن منصور ( 2 / 221 ) نے عمر بن سائب كى طريق سے روايت كيا ہے كہ:
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم زخمى ہوئے تو ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ كے والد مالك نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا زخم چوسا حتى كہ وہ صاف ہو كر سفيد ہو گيا، تو انہيں كہا گيا اس كى كلى كر دو تو وہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ميں كبھى بھى اس كى كلى نہيں كروں گا، پھر واپس پلٹ كر لڑنے لگے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
جو شخص كسى جنتى شخص كو ديكھنا چاہتا ہے تو وہ اس شخص كو ديكھ لے، تو يہ شہيد ہو گئے " انتہى
ديكھيں: التلخيص الحبير ( 1 / 31 ).
خلاصہ يہ ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون پينے كے متعلق جو كچھ ملتا ہے اس ميں صحيح ترين عبد اللہ بن زبير رضى اللہ عنہ كا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا خون نوش كرنا ہے، اور اس كى سند پر بھى كلام كى جا چكى ہے، ليكن اس كے علاوہ كوئى اور روايت صحيح ثابت نہيں.
سوم:
يہاں ايك مسئلہ پيش آتا ہے كہ خون نجس ہونے اور عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون نوش كرنے كے درميان موافقت اور تطبيق كيسے ہو گى ؟
علماء كہتے ہيں: يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خصوصيات ميں شامل ہوتا ہے جس كے حكم ميں صرف وہى منفرد ہيں امت شامل نہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خصوصيات بہت سى ہيں جنہيں علماء كرام نے كئى جلدوں ميں جمع كيا ہے مثلا: امام سيوطى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " الخصائص الكبرى " ميں، اور بعض علماء كرام نے تو عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہ كے قصہ پر اعتماد كرتے ہوئے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون شريف طاہر اور پاك ہے.
ديكھيں: الشفا ( 1 / 55 ) اور المغنى المحتاج ( 1 / 233 ) اور تبيين الحقائق ( 4 / 51 ) اگرچہ المجموع ( 1 / 288 ) ميں جمہور شافعى حضرات سے يہ منقول ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا خون بھى باقى سب خون كى طرح نجس ہے.
واللہ اعلم .