جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کیا حاجی پر عید کی قربانی کرنا واجب ہے؟

سوال

سوال:کیا حاجی کیلیے عید کی قربانی کرنا واجب ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بنیادی طور پر عید کی قربانی کے حکم سے متعلق ہی علمائے کرام کا اختلاف ہے، چنانچہ جمہور علمائے کرام اس بات کےقائل ہیں کہ عید کی قربانی سنت مؤکدہ ہے ، جبکہ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ استطاعت رکھنے والے پر واجب ہے۔
اس بارے میں تفصیلی گفتگو سوال نمبر: (36432) کے جواب میں گزر چکی ہے۔

نیز یہ اختلاف ان لوگوں کے بارے میں ہے جو حج نہیں کر رہے، جبکہ حاجی کے لیے عید کی قربانی  کرنے کے بارے میں بھی اہل علم کا اختلاف ہے،کچھ اہل علم حاجی کیلیے عید کی قربانی کرنا  جا ئز قرار دیتے ہیں ان بھی سے بھی کچھ اسے مستحب یا واجب کہتے ہیں جبکہ کچھ اہل علم حاجی کیلیے عید کی قربانی کو جائز نہیں  سمجھتے۔

جن اہل علم نے  حاجی کیلیے عید کی قربانی کو جائز نہیں سمجھا ان کے ہاں عدمِ جواز کے اسباب میں اختلاف ہے، سببِ عدمِ جواز کیلیے ان کے دو موقف ہیں:

1- حاجی نماز عید نہیں پڑھتا ، حاجی کے ذمہ جو حج کی قربانی ہے وہ حج تمتع یا قران کی قربانی ہے جسے ہدی کہتے ہیں۔

2- حاجی چونکہ مسافر ہے اور عید کی قربانی مقیم شخص پر ہوتی ہے ، یہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے، تاہم اگر حاجی اہل مکہ میں سے ہے تو پھر وہ مسافر نہیں ہے اس لیے اہل مکہ پر عید کی قربانی واجب ہو گی۔

ذیل میں ان کے فقہی موقف کی تفصیلات  ہیں:

1- حنفی فقہائے کرام " المبسوط " ( 6 / 171 ) کے مطابق کہتے ہیں کہ:
"صاحب استطاعت  اور مقیم لوگوں پر ہمارے ہاں عید کی قربانی واجب ہے" انتہی

اسی طرح " الجوهرة النيرة " ( 5 / 285 ، 286 ) میں ہے کہ:
"مسافر حاجی پر عید کی قربانی واجب نہیں ہے، البتہ اہل مکہ حج بھی کریں تو بھی ان پر عید کی قربانی واجب ہو گی " انتہی

2- مالکی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ :
حاجی کے ذمے عید کی قربانی کا نہ ہونااُن کے حاجی ہونے کی وجہ سے  ہے  نا کہ مسافر ہونے کی وجہ سے۔
چنانچہ " المدونة " ( 4 / 101 ) میں ہے کہ:
"مجھے مالک نے کہا: "حاجی کے ذمہ عید کی قربانی نہیں ہے چاہے وہ منی کا رہائشی ہی کیوں نہ ہو"، اس پر میں نے کہا: "اس کا مطلب یہ ہے کہ مالک کے ہاں حجاج کے علاوہ تمام لوگوں پر قربانی واجب ہے؟" انہوں نے  کہا: "ہاں""انتہی

3- شافعی فقہائے کرام کے مطابق حاجی اور غیر حاجی کیلیے  سب کیلیے عید کی قربانی مستحب ہے۔
چنانچہ امام شافعی کہتے ہیں:
"مقامی یا آفاقی  حاجی، مسافر، مقیم، مرد و خواتین جنہیں بھی عید کی قربانی  میسر ہو : سب کا حکم یکساں ہے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے، اگر کسی صورت میں ان میں سے کسی ایک پر عید کی قربانی واجب ہو گی تو سب پر واجب ہو گی اور اگر کسی صورت میں ان میں سے کسی ایک سے قربانی ساقط ہو گی تو سب سے ساقط ہو جائے گی، ان میں سے اگر کسی پر قربانی واجب ہو اور کچھ پر نہ ہو تو پھر حاجی  پر قربانی واجب ہونا زیادہ  بہتر لگتا ہے؛ کیونکہ  یہ بھی ایک قربانی  ہے اور حاجی نے ویسے ہی قربانی کرنی ہوتی ہے دیگر  کسی بھی شخص پر قربانی نہیں ہوتی، چنانچہ کسی بھی چیز کو لوگوں پر واجب قرار دینے کیلیے دلیل کا ہونا ضروری ہے ، اور اگر لوگوں کے حکم میں فرق روا رکھنا ہے تو وہ بھی دلیل کی بنیاد پر ہی ہونا چاہیے" انتہی
" الأم " ( 2 / 348 )

4- ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عید کی قربانی حاجی کیلیے بھی اسی طرح مستحب ہے جیسے کہ دیگر کیلیے مستحب ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ : حاجی عید کی قربانی مت کرے۔۔۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی قربانی کرنے کیلیے ترغیب دلائی ہے ، اس لیے حاجی کو اس فضیلت اور قربِ الہی  کے عمل سے بغیر کسی دلیل کے روکنا جائز نہیں ہے" انتہی مختصراً
" المحلى " ( 5 / 314 ، 315 )

5- حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ:
حاجی کیلیے عید کی قربانی کرنا جائز ہے ۔
چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر حاجی کے ساتھ حج کی قربانی نہ ہو لیکن حج کی قربانی اس کیلیے کرنا واجب بھی ہو تو وہ حج کیلیے قربانی خریدے گا، لیکن اگر حج کی قربانی حاجی پر واجب نہ ہو تاہم حاجی عید کی قربانی کرنا چاہے تو وہ عید کی قربانی کیلیے جانور خرید سکتا ہے۔" انتہی
" المغنی" ( 7 / 180 )

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی خواتین کی جانب سے عید کی قربانی کی) بخاری: (5239) مسلم: (1211)

البتہ کچھ اہل علم  کا موقف ہے جن میں ابن قیم بھی شامل ہیں کہ اس حدیث کو دلیل بنانا صحیح نہیں؛ ان کے مطابق اس حدیث کے عربی الفاظ میں "أضحية" سے مراد "هدي" یعنی عید کی قربانی نہیں بلکہ حج کی قربانی مراد  ہے۔
دیکھیں: " زاد المعاد " ( 2 / 262 – 267 )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہما اللہ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ حاجی عید کی قربانی نہ کرے، دیکھیں:  " الإقناع " ( 1 / 409 ) اور " الإنصاف " ( 4 / 110 )

نیز شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے، چنانچہ آپ سے استفسار کیا گیا: "حج  اور عید کی قربانی دونوں جمع کر سکتا ہے؟ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"حاجی عید کی قربانی   نہیں کرسکتا بلکہ حاجی کے ذمہ حج کی قربانی ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر عید کی قربانی نہیں کی بلکہ حج کی قربانی کی تھی، تاہم اگر فرض کریں کہ حاجی اکیلا حج کیلیے آتا ہے جبکہ اس کے اہل خانہ اپنے علاقے میں ہیں تو اسے چاہیے کہ اتنی رقم چھوڑ کر آئے جس سے اس کے اہل خانہ عید کی قربانی کریں ، اس طرح گھر کا سربراہ حج کی وجہ سے حج کی قربانی یعنی: ہدی ذبح کرے گا اور اس کے اہل خانہ  عید کی قربانی کریں گے؛ کیونکہ عید کی قربانی دیگر شہروں میں ہوتی ہے جبکہ مکہ میں ہدی ہوتی ہے" انتہی
"اللقاء الشهري"

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب