الحمد للہ.
اول:
اگر حائضہ عورت کو عشا کا وقت شروع ہونے کے بعد طہر آ جائے تو اس پر عشا کی نماز ادا کرنا لازم ہے؛ کیونکہ اس نے عشا کا وقت پا لیا ہے، اسی طرح ساتھ ہی مغرب کی نماز بھی ادا کرے گی ؛ کیونکہ مغرب کی نماز عشا کے ساتھ عذر کی صورت میں جمع کی جا سکتی ہے۔
ایسے ہی اگر عصر کا وقت شروع ہونے کے بعد طہر آئے تو ظہر اور عصر دونوں نمازیں پڑھے گی؛ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کچھ صحابہ کرام اور جمہور علمائے کرام نے یہی فتوی دیا ہے۔
لیکن اگر فجر، یا ظہر ، یا مغرب کے بعد پاک ہو تو ایسی صورت میں صرف ایک وہی نماز پڑھے گی جس کے وقت میں اسے طہر آیا ہے یعنی فجر، یا ظہر، یا مغرب؛ کیونکہ ان نمازوں کو پہلے والی نماز کے ساتھ اکٹھا نہیں کیا جا سکتا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/238)میں کہتے ہیں:
"جب حائضہ سورج غروب ہونے سے قبل پاک ہو جائے تو ظہر اور عصر دونوں نمازیں پڑھے گی۔
اور اگر طلوع فجر سے قبل طہر آئے تو مغرب اور عشا دونوں نمازیں ادا کرے گی، یہ موقف عبد الرحمن بن عوف، ابن عباس، طاوس، مجاہد، نخعی، زہری، ربیعہ، مالک، لیث، شافعی، اسحاق اور ابو ثور سے منقول ہے۔ بلکہ امام احمد رحمہ اللہ تو کہتے ہیں کہ: صرف حسن بصری رحمہ اللہ کے علاوہ بقیہ تمام تابعین اسی قول کے قائل ہیں، حسن بصری یہ کہتے ہیں کہ: صرف وہی نماز پڑھے گی جس کے وقت میں طہر آیا ہے، یہ موقف ثوری، اور اصحاب رائے کا ہے؛ کیونکہ پہلی نماز کا وقت عورت کے حیض کی حالت میں گزر گیا ہے، اس لیے وہ نماز بھی اسی طرح واجب نہیں ہو گی جیسے دوسری نماز کا وقت اگر نہ پاتی تو دوسری بھی واجب نہ ہونی تھی۔
امام مالک رحمہ اللہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ: حائضہ دوسری نماز کے وقت میں سے اتنا وقت پا لے کہ 5رکعات ادا کر سکے، تو پہلی نماز بھی واجب ہو جائے گی؛ کیونکہ پانچ رکعتوں میں سے پہلی رکعت کا وقت عذر کی حالت میں پہلی نماز کا وقت ہے ، لہذا پہلی نماز کا اتنا وقت پانے کی وجہ سے پہلی نماز بھی اسی طرح واجب ہو جائے گی جیسے نماز کا اول وقت پانے سے واجب ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک رکعت سے بھی کم وقت ملتا ہے تو پھر پہلی نماز واجب نہیں ہو گی۔
ہماری دلیل اثرم، ابن المنذر اور دیگر نے اپنی اپنی سند سے بیان کیا کہ ہے کہ عبد الرحمن بن عوف اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما دونوں نے ایسی حائضہ کے بارے میں کہا جو طلوع فجر سے اتنی دیر پہلے پاک ہو جائے کہ ایک رکعت ادا کر سکتی ہو تو وہ مغرب اور عشا دونوں نمازیں پڑھے گی، چنانچہ اگر غروب آفتاب سے قبل پاک ہو تو ظہر اور عصر دونوں نمازیں پڑھے گی؛ ویسے بھی دوسری نماز کا وقت عذر کی صورت میں پہلی نماز کا وقت بھی ہوتا ہے ، لہذا صاحب عذر شخص دوسری نماز کا وقت پا لے تو اس پر پہلی اور دوسری دونوں نمازیں لازم ہوں گی۔" مختصراً ختم شد
اسی طرح "زاد المستقنع" کے متن میں ہے کہ:
"اگر کسی شخص پر نماز کا وقت ختم ہونے سے قبل نماز فرض ہو جائے تو وہ موجودہ نماز کے ساتھ سابقہ ایسی نماز جسے موجودہ کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے؛دونوں نمازیں ادا کرے گا۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی تشریح میں کہتے ہیں:
"اس کی مثال یہ ہے کہ: اگر کوئی شخص نماز عصر میں سے ایک رکعت یا محض تکبیر تحریمہ کے برابر ہی نماز کا وقت پائے تو اس پر عصر اور ظہر دونوں نمازیں واجب ہو جائیں گی، اسی طرح اگر کوئی عشا کے وقت میں سے اتنا ہی وقت پاتا ہے تو اس پر عشا کے ساتھ مغرب کی نماز بھی لازم ہو گی، اور اگر فجر کی نماز میں سے اسے اتنا وقت ملتا ہے تو اس پر صرف فجر کی نماز ہی واجب ہو گی؛ کیونکہ نماز فجر کو سابقہ نماز کے ساتھ جمع نہیں کیا جا سکتا۔
اور اگر کہا جائے کہ: پہلی مثال میں ظہر اور دوسری مثال میں مغرب کے واجب ہونے کی کیا وجہ ہے؟
تو جواب یہ ہے کہ: اس حوالے سے آثار بھی ہیں اور قیاس بھی یہی کہتا ہے:
چنانچہ آثار سیدنا عبد اللہ بن عباس اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے مروی ہیں۔
جبکہ قیاس یہ ہے کہ: جب ایسا عذر ہو جس کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہو تو دوسری نماز کا وقت بھی پہلی نماز کا وقت بن جاتا ہے، چنانچہ جب عذر کی حالت میں یہ پہلی نماز کا وقت بن سکتا ہے تو دونوں میں سے کسی بھی نماز کا وقت پانے سے دونوں نمازیں ہی اکٹھے واجب ہونے کا باعث ہو گا۔ یہ مشہور حنبلی موقف ہے۔
جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ: صرف وہی نماز واجب ہو گی جس کا وقت پایا ہے، چنانچہ ان کے ہاں سابقہ نماز واجب نہیں ہو گی۔" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اسی دوسرے موقف کو راجح قرار دیا ہے۔
تاہم محتاط عمل یہی ہے کہ جمہور اہل علم کے موقف پر عمل کیا جائے، اس لیے آپ دونوں نمازیں اکٹھی ادا کریں گی، تاہم پورے دن کی نمازیں پڑھنا آپ پر واجب نہیں ہے، اور اگر آپ صرف موجودہ نماز پڑھیں تو بھی امید ہے کہ کوئی حرج نہیں ہو گا۔
دوم:
عورت کے حیض سے پاک ہونے کی دو علامتوں میں سے ایک ظاہر ہو جائے تو عورت پاک ہو جاتی ہے: بالکل سفید رطوبت نکلے، یا پھر مخصوص جگہ بالکل خشک ہو جائے، یعنی مخصوص جگہ میں روئی داخل کرے تو صاف نکلے اس پر سرخی یا زردی نہ ہو، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (5595 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔
اس لیے آپ اگر سفید رطوبت نظر نہ آنے کی وجہ سے ایک دن پورا نماز ادا کیے بغیر گزاریں تو یہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کے طہر کی علامت خشک ہونا ہو، اس لیے طہر کے لیے آپ خشکی کی علامت کو مد نظر رکھیں۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حیض کے منقطع ہونے کی علامت طہر ہے، اور طہر یہ ہے کہ خون، زرد یا مٹیالے رنگ کی رطوبت نکلنا بند ہو جائے، چنانچہ جس وقت خون بند ہو جائے تو عورت پاک ہو جائے گی چاہے بعد میں سفید رطوبت خارج ہو یا نہ ہو۔" ختم شد
"المجموع" (2/562)
واللہ اعلم