جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

محكمہ كو علم ہوتے ہوئے حاضرى لگانے كے وقت ميں گڑبڑ كرنا

85053

تاریخ اشاعت : 09-12-2019

مشاہدات : 4745

سوال

ميں معلمہ ہوں اور ہمارى حاضرى سوا سات بجے ہوتى ہے، ليكن آفس كى اجازت سے آٹھ بجے تك لائن نہيں لگائى جاتى، مشكل يہ ہے كہ ہم آٹھ بجے آ كر سات بجے كى حاضرى لگاتى ہيں، معلمات كا كہنا ہے كہ يہ دفتر والوں كے علم ميں ہے اور ہم پر كوئى گناہ نہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ڈيوٹى پر حاضر ہونے اور جانے والے رجسٹر ميں وقت لكھتے وقت ملازم كے ليے آنے اور جانے كا غلط وقت لكھنا جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں جھوٹ، دھوكہ، باطل طريقہ سے مال كھانا ہے، ادارہ والوں كو كوئى حق نہيں كہ وہ يہ گڑ بڑ كرنے كى اجازت ديں، چاہے ليٹ آنے والى كو سزا نہ بھى دينا ہو تو ايسى اجازت نہيں دينى چاہيے.

بلكہ ملازم كے ليے وہ حقيقى وقت لكھنا ضرورى ہے جس ميں وہ حاضر ہوا ہے، اور اسى طرح جب ڈيوٹى سے نكلا ہے وہى وقت درج كرنا چاہيے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك سركارى ملازم اپنے محكمہ ميں مسلسل حاضرى ديتا ہے، اور جب ڈيوٹى پر پہنچے تو جس وقت پہنچے وہى وقت رجسٹر ميں درج كرتا ہے، ليكن اس كے كچھ دوست ملازمين غلط وقت درج كرتے ہيں؛ مثلا كوئى شخص سات بجے آيا ہے تو وہ ساڑھے چھ بجے كا وقت درج كرتا ہے، يا اس طرح كچھ كمى وبيشى كر كے.

اس طرح يہ دھوكہ دينے والے ملازمين دستخط كرنے ميں اپنى جعل سازى سے امتيازات حاصل كر ليتے ہيں، اور وہ اس سے محروم رہ جاتا كہ كيونكہ اگر وہ دير سے آيا تو اس نے وہى تاخير والا وقت درج كيا ہے، تو كيا اس كے ليے باقى ملازمين كى طرح كرنا جائز ہے ؟

اور اس افسر اور مينجر كا حكم كيا ہے جو اس مسئلہ ميں تساہل اور سستى سے كام ليتا ہے، اور كيا ان كى يہ عادت اور تعارف ايسا فعل كرنے كو مباح كر ديتا ہے ؟ اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" ہر مسلمان شخص كو كام اور ڈيوٹى ميں امانت و ديانت كا مظاہرہ كرنا چاہيے، اور وہ خيانت كرنے سے اجتناب كرے، اور حاضرى اور غائب ہونے اور ہر چيز ميں امانت سے كام لے، اور اس پر واجب ہے كہ وہى وقت رجسٹر ميں درج كرے جس وقت وہ ڈيوٹى پر آيا ہے، اور جس وقت ڈيوٹى سے گيا ہے وہى وقت رجسٹر ميں درج كرے، تا كہ وہ برى الذمہ ہو سكے.

اور اس كے ذمہ دار افسر اور مينجر پر بھى واجب ہوتا ہے كہ وہ انہيں نصيحت كرے اور خير و بھلائى كى راہنمائى كرے، اور انہيں خيانت كرنے سے ڈرائے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى.

ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 19 / 356 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب