سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

یہ جہان عدم سے وجود میں آیا ہے۔

سوال

کیا درج ذیل بات کہنا درست ہے؟ اور کیا اس میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں؟ واضح رہے کہ یہ شعر زبد بن رسلان کے متن سے لیے گئے ہیں:

" فاقطع يقيناً بالفؤاد واجزمِ بحدث العالم بعد العدمِ أحدثه لا لاحتياجه الإلهُ ولو أراد تركه لما ابتداهُ "

براہ مہربانی اس بارے میں وضاحت فرمائیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ان دونوں شعروں کا معنی اور مفہوم بالکل ٹھیک ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے، اس شعر میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں:

اول: یہ عالم حادث ہے ، عدم سے وجود میں آیا ہے، یہ بات بالکل ٹھیک ہے اس میں کوئی شک نہیں، اس لیے کہ اللہ تعالی کے سوا ہر چیز بعد میں پیدا کی گئی ہے ، اور اسے عدم سے وجود بخشا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

ترجمہ: اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، اور وہ ہر چیز کو سنوارنے والا ہے۔ [الزمر: 62]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مخلوق کا کوئی وجود نہیں تھا، خالق ہی نے مخلوق کو وجود بخشا ہے تو یہ حق بات ہے، پھر اس کے بعد ساری کائنات کا وہ خالق ، پروردگار اور بادشاہ ہے، اس کائنات میں کوئی بھی چیز اس کی قدرت، مشیئت اور تخلیق کے بغیر پیدا نہیں ہوتی، وہی ہر چیز کا خالق ہے۔" ختم شد
مجموع الفتاوى (2/27)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"صریح عقلی باتوں کے ذریعے فلاسفہ اور دیگر اقوام کے اہل دانش جس چیز کو سمجھ پائے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی تعلیمات کی تائید اور تصدیق کرتی ہے، اور ان لوگوں کے موقف کے خلاف ہے جنہوں نے بدعتی نظریات اپنائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی مخالفت کی، دوسری طرف صریح معقول باتوں کے ساتھ ساتھ شریعت سے جو کچھ سمجھا گیا وہ بھی دَہری نظریات رکھنے والوں کے رد کا باعث بنا کہ اللہ تعالی کے ساتھ ساتھ یہ جہان قدیم ہے ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جہان کو قدیم کہنا ایسا موقف ہے کہ تمام کے تمام اہل دانش اس کے باطل ہونے پر متفق ہیں، لہذا صرف مسلمان ہی ان کی اس بات کو رد نہیں کرتے بلکہ تمام تر مذاہب اور ادیان کے ماننے والے اس موقف کی تردید کرتے ہیں، چاہے ان کا تعلق مجوسیوں سے ہو یا ہندوستان اور عرب کے مشرکوں سے، یا ان کے علاوہ جمہور اساطین فلاسفہ سب کے سب اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، اور عرب مشرکین سب کے سب اس بات کے معترف ہیں کہ اللہ تعالی ہر چیز کا حالق ہے، اور یہ ساری کائنات مخلوق ہے، اور اس کا خالق صرف اللہ تعالی ہے۔" مجموع الفتاوی: (5/565)

دوم:اللہ تعالی نے اس جہان کو پیدا کیا اور اللہ تعالی کو یہ جہان پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، یہ بات بھی بالکل صحیح ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی ہر چیز سے غنی ہے، ہاں اس کے علاوہ ہر چیز اسی کی محتاج بھی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ

ترجمہ: اے لوگو! تم اللہ تعالی کے محتاج ہو، اور اللہ ہی غنی اور قابل تعریف ہے۔ [فاطر: 15]

شیخ ابن سعدی رحمہ اللہ اپنی تفسیر (687)میں لکھتے ہیں:
"اللہ تعالی یہاں پر تمام کے تمام لوگوں کو مخاطب کر کے ان کی اصلیت بیان فرما رہا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے، اور تم سب کے سب اللہ تعالی کے ہر اعتبار سے محتاج ہو، اپنے وجود کے لیے بھی اسی کے محتاج ہو، یہی وجہ ہے کہ اگر وہ انہیں پیدا نہ کرتا تو ان کا وجود ہی نہ ہوتا۔

تم سب کے سب اپنی قوت، اعضا اور جوارح میں بھی اللہ کے محتاج ہو کہ اگر وہ تمہیں قوت اور اعضا نہ دیتا تو تم کسی بھی کام کو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ سکتے تھے۔

تم روزی ،معاش ، ظاہری اور باطنی تمام نعمتوں میں بھی اسی کے محتاج ہو، لہذا اگر اس کا فضل نہ ہوتا، وہ تم پر اپنا احسان نہ کرتا، تمہارے معاملات کو آسان نہ بناتا تو تمہیں کچھ بھی کھانے پینے کو نہ ملتا، تمہیں کوئی نعمت میسر نہ ہوتی۔

تم اپنے آپ سے آفتوں اور وباؤں کو دور رکھنے میں بھی اسی کے محتاج ہو، مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے اسی کے محتاج ہو، اگر وہ وباؤں اور تکالیف کو تم سے دور نہ رکھتا ، تمہاری مشکل کشائی نہ فرماتا، تمہاری مشکلات آسان نہ کرتا، تو یہ تکالیف جاری و ساری ہی رہتیں۔

تم اللہ تعالی کے محتاج ہر طرح کی تعلیم و تربیت میں، ہر طرح کی تدبیر میں۔

تم اللہ کی بندگی میں بھی اسی کے محتاج ہو، اللہ سے محبت، اللہ کی بندگی اور اخلاص میں بھی ؛ چنانچہ اگر وہ تمہیں توفیق نہ دیتا تو سب کے سب تباہ و برباد ہو جاتے، تمہاری روحانیت، وجدانی زندگی اور حالات سب تباہ ہو جاتے۔

تم حصول علم میں بھی اسی کے محتاج ہو، مفید علم سیکھنے کے لیے بھی تمہیں اسی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر وہ تمہیں نہ سکھائے تو تم کیسے سیکھ سکتے ہو؟ اگر وہ توفیق نہ دے تو تم اپنے معاملات کیسے سنوار سکتے ہو؟

اس لیے سب کے سب ذاتی حیثیت میں اللہ تعالی کے ہر اعتبار سے محتاج ہیں، چاہے انہیں اپنی اس محتاجی کا کچھ احساس ہو یا نہ ہو، لیکن تمام مخلوقات میں سے کامیاب شخص وہی ہے جو ہمیشہ اپنی محتاجگی کو دین و دنیا کے تمام تر معاملات میں واضح دیکھ لیتا ہے، اور اللہ تعالی کے سامنے ہی گڑگڑاتا ہے، وہ اللہ تعالی سے دعا مانگتا ہے کہ: اے اللہ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے اپنے رحم و کرم پر مت چھوڑنا، یا اللہ! میری تمام امور میں مدد فرمانا، کامیاب شخص ہر وقت اس معنی اور مفہوم کو اپنے دل میں لیکر چلتا ہے، تو ایسا شخص اپنے پروردگار اور الٰہ کی جانب سے مکمل اعانت اور مدد کا حقدار ہوتا ہے، اس کا پروردگار اس کی ماں سے بھی زیادہ اس پر رحم اور شفقت کرنے والا ہے۔

وہی غنی اور قابل تعریف ہے: یعنی وہ ایسی ذات ہے کہ وہ ہر اعتبار سے غنی ہے، اسے اپنی مخلوقات کی طرح کسی بھی چیز کی محتاجگی پیش نہیں آتی، نہ اسے کسی بھی ایسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جس کی مخلوق کو ضرورت ہوتی ہے؛ کیونکہ اس میں خوبیاں ہی ایسی کمال کی ہیں، اور ساری کی ساری خوبیاں صفات کمال اور جلال ہیں۔

اللہ تعالی کے غنی ہونے میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں سب سے غنی ہے، اسے کسی کی ضرورت نہیں، وہ اپنی ذات اور اسما سب میں قابل تعریف ہے؛ کیونکہ اس کے تمام تر نام اور اوصاف بہترین اور اعلی ہیں؛ اسی طرح اس کے افعال بھی سب سے اعلی ہیں؛ کیونکہ اس کے افعال سراپا فضل، احسان، عدل، حکمت اور رحمت ہیں، اس کے اوامر و نواہی بھی اعلی ترین ہیں کہ جو کچھ ان میں ہے اور جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے وہ سب کچھ قابل تعریف ہے، چنانچہ وہ اپنے غنی ہونے میں بھی قابل تعریف ہے اور اپنی تعریف میں بھی وہ غنی ہے۔" ختم شد

امام طحاوی رحمہ اللہ اپنے مشہور عقیدہ طحاویہ میں لکھتے ہیں کہ:
"اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کائنات کی ہر چیز اسی کی محتاج ہے، اور ہر معاملہ اس کے لیے بالکل آسان ہے، اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کی مانند کوئی بھی نہیں، وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔" ختم شد

سوم: تیسری بات یہ ہے کہ اگر وہ اس جہان کو نہ بنانا چاہتا تو وہ اس کا آغاز ہی نہ کرتا، یعنی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے تمام کام اپنے مکمل اختیار سے کرتا ہے، کوئی بھی اللہ تعالی پر کسی چیز کو لازم کرنے والا نہیں ہے۔ دوسری طرف فلاسفہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی پر کوئی چیز لازم ہو سکتی ہے۔ لہذا اگر اللہ تعالی چاہتا تو اس جہان کو پیدا ہی نہ فرماتا، تاہم اللہ تعالی نے ہر چیز کو مکمل مشیئت اور اپنے اختیار سے پیدا کیا ہے، اور یہ بات بھی بالکل صحیح ہے، اس پر واضح آیات موجو دہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ 

ترجمہ: وہ جو چاہتا ہے اسے کرنے والا ہے۔[البروج: 16]

اور اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ 

ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور اسے چنیدہ بنا لیتا ہے۔[القصص:68]

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب