الحمد للہ.
الحمدللہ
اول :
دین اسلام معافی ودرگزر اوربخشش ومغفرت پرابھارتا ہے ، اورقرآن مجید اورسنت نبویہ میں بھی اس کوذکر کیا گيا ہے ، بلکہ دین اسلام کی صفات میں شامل ہے کہ یہ دین رحمت مہربانی کا دین ہے ، اوراسی طرح مسلمان شخص نفرت پھیلانے والا نہيں بلکہ خوشیاں بانٹنے والا ہے ، اوروہ قدرت وطاقت رکھتے ہوئے بھی معاف ودرگزرسے کام لیتا ہے اورغلطی کے وقت معاف کردیتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہوجانے کے محض حسدوبغض کی بنا پرتمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں ، تم بھی معاف کرو اوردرگزری سے کام لو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم لائے ، یقینا اللہ تعالی ہر چيز پر قدرت رکھتا ہے البقرۃ ( 109 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پراللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
پھران کی عھد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرمادی اوران کے دل سخت کردیئے کہ وہ کلام کو اس کی جگہ سے بدل ڈالتے ہیں ، اورجوکچھ نصیحت انہیں کی گئي تھی اس کا بہت بڑا حصہ بھلابیٹھے ، ان کی ایک نہ ایک خیانت پرتجھے اطلاح ملتی رہے گی ، ہاں تھوڑے سےایسے نہیں بھی ہیں ، پس توانہیں معاف کرتا جا اوردرگزر کرتا رہ ، بے شک اللہ تعالی احسان کرنے والوں سےمحبت کرتا ہے المائدۃ ( 13 ) ۔
اورایک مقام پراللہ تعالی نے یہ فرمایا :
اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اوربعض بچے تمہارے دشمن ہیں ، پس ان سے ہوشیار رہنا اوراگر تم معاف کردو اوردرگزر کرجاؤ اوربخش دو تواللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے التغابن ( 14 ) ۔
توکفارسے یہ درگزر اورمعاف کرنا اللہ تعالی سے اجروثواب حاصل کرنا ہے ، اوراس لیے بھی کہ کافروں کے دل نرم ہوں اوروہ اللہ تعالی کے دین میں داخل ہوں ، لھذا یہ نرمی مستحب ہے اوردرگزر بھی مستحب ہے جس سے عظیم امور کا ثبوت مراد ہے اوروہ اللہ تعالی کے ہاں اجروثواب اورکافر کا اللہ تعالی کے دین میں داخل ہونے کی ترغیب ، کیونکہ مسلمانوں کی تلواروں اوران کے گھوڑوں اورقلعوں کے حملوں سے قبل ہی ان کے اخلاق مشرکوں کے دلوں پرحملہ آور ہوسکتے ہیں جس سے وہ اللہ تعالی کے دین میں فوج دوفوج داخل ہونا شروع ہوگئے تا کہ وہ بھی مسلمانوں کے اس اخلاق جمیلہ کواپنا سکیں ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اللہ تعالی کی رحمت کے باعث آپ ان پرنرم دل ہیں اوراگر آپ بدزبان اورسخت دل ہوتے تویہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ، سوآپ ان سے درگزر کریں اوران کے لیے استغفار کریں اورکام میں ان سے مشورہ کیا کریں ، پھر جب آپ کا ارادہ پختہ ہوجائے تواللہ تعالی پربھروسہ کریں ، بے شک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے آل عمران ( 159 ) ۔
تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ رحمت وشفقت اورنرمی ہی ہے جولوگوں کے لیےدین اسلام میں داخل ہونے کا سبب بنی ، اوراگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نرم خواورشفقت ومہربان نہ ہوتے تولوگ آپ کے ارد گرد سے علیحدہ ہوجاتے اورآپ کوچھوڑ تے ہوئے آپ کی دعوت پرایمان نہ لاتے ۔
عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یھودی آئے اورکہنے لگے : السام علیکم ( سام موت کوکہتے ہیں ) عائشہ رضي اللہ تعالی کہتی ہيں کہ میں نےاسے سمجھ لیا اورکہا وعلیکم السام واللعنۃ کہ اورتم پربھی موت اورلعنت بھی ہو ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اے عائشہ ذرا ٹھر جاؤ صبر سے کام لو ، یقینااللہ تعالی ہر معاملہ میں نرمی کوپسند فرماتا ہے ، میں نے کہا : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سنا نہيں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے میں نے وعلیکم ( یعنی تم پرہی ہو ) کہا ہے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5678 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2164 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں :
اس لیے کہ اس وقت یھودیوں سے معاھدہ تھا ، اورجوظاہر ہوتا ہے وہ یہ ایسامصلحت کی خاطرتھا کہ ان کی تالیف قلب ہوسکے ۔
دیکھیں : فتح الباری شرح صحیح بخاری لابن حجر ( 11 / 43 ) ۔
دوم :
اللہ سبحانہ وتعالی نے مسلمان کواس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر اس پرزيادتی اورظلم ہوتووہ اس کا بدلہ لے ، لیکن عفرودرگزرکرنے پررغبت دلائي ہے ، اسی کے بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اوربرائي کا بدلہ اس جیسی برائي ہے ، اورجومعاف کردے اورصلاح کر لے اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے ہے ، ( فی الواقع ) اللہ تعالی ظالموں سے محبت نہيں کرتا ۔
اورجوشخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد ( برابر ) کا بدلے لے لے توایسے لوگوں پر ( الزام کا ) کوئي راستہ نہیں ، یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے جوخود دوسروں پرظلم کریں ، اورزمین میں ناحق فساد کرتے پھریں ، یہی لوگ ہیں جن کے لیے درد ناک عذاب ہے ، جوشخص صبر کرلے اورمعاف کردے یقینا یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ایک کام ہے } الشوری ( 40 - 43 ) ۔
اورایک مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
برائي کے ساتھ آوازبلند کرنے کواللہ تعالی پسند نہيں فرماتا مگر مظلوم کواجازت ہے ، اوراللہ تعالی خوب سننے والا جاننے والا ہے النساء ( 148 ) ۔
لیکن جس چيز کا علم ہونا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کفارکی جانب سے پہنچنےوالی وہ اذیت وتکلیف مسلمان معاف کرے گا جس کی بنا پرمسلمان ذلیل ورسوا نہ ہوکیونکہ مسلمان عزت والا ہے ، اوراللہ تعالی نے اسے عزت وشرف سے نوازا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس سے عزت حاصل کرے اوراس کے ساتھ مزین ہو اس لیے کے مسلمان کی عزت میں اسلام اورعام مسلمانوں کی عزت ہے۔
لیکن اگر مسلمان معاف کرنے کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہورہا ہوتواس وقت مسلمان پرواجب اورضروری ہے کہ وہ کافر سے بدلہ لے اوراسے معاف نہ کرے اسی بارہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورجب ان پر ظلم وزيادتی ہوتو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں الشوری ( 39 ) ۔
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں :
اللہ تعالی کا یہ فرمان : اورجب ان پر ظلم وزيادتی ہوتو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں الشوری ( 39 )
عفودرگزرے کے منافی نہیں اس لیے کہ انتصار اوربدلہ لینا توانتقام لینے کے لیے قوت وطاقت کا اظہار ہے ، پھراس کے بعد عفوودرگزر ہوسکتی ہے تویہ اتم واکمل ہے ، امام نخعی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کےبارہ میں کہتے ہیں " وہ ذلیل ہونا ناپسند کرتے تھے اورجب قدرت واستطاعت ہوتی تومعاف کردیتے ۔
اور مجاھدرحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : وہ مومن ناپسندکرتے تھے کہ مومن اپنے آپ کوذلیل کرے اورفاسق قسم کےلوگ ان پرجری ہوجائيں ۔
لھذا مومن شخص پر جب ظلم وزيادتی ہووہ انتقام کی قدرت ظاہر کرے اورپھر اس کے بعد معاف کردے ، سلف رحمہم اللہ تعالی میں بھی ایسے کئي ایک واقعات ہوئے ہیں جن میں عطاء اورقتادہ رحمہمااللہ تعالی وغیر شامل ہيں۔ دیکھیں : الجامع العلوم والحکم ( 1 / 179 ) ۔
اسی لیے معاف ودرگزر ہروقت اورہرجگہ پرکوئي اچھی اورقابل ستائش نہيں ، بلکہ بعض اوقات تومذموم بھی ہوتی ہے جب معاف ودرگزر کرنے کی وجہ سے مسلمان پرذلت ورسوائي ہویا پھرظلم وزيادتی کرنے والے اورزيادہ ظلم کرنے پرجرات کرنے لگیں تواس حالت میں عفوو درگزر مذموم ہوگي ، وغیرہ ذالک ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے بھی مندجہ ذيل فرمان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے :
لھذا جومعاف کردے اوراصلاح کرے تواس کا اجروثواب اللہ تعالی کے ذمے ہے ۔
تواللہ تعالی نے بیان کیا ہے کہ عفوودرگزر اس وقت قابل ستائش ہوگي جب اصلاح کرنا مقصود ہو، لیکن اگر اس کے نتیجہ میں فساد پیدا ہورہا ہو توپھر قابل ستائش نہيں ۔
اس لیے مسلمان کےلیے ضروری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کس میں اصلاح ہے آیا معاف کرنے میں یا بدلہ لینے میں جس میں بھی اصلاح ہواسے وہی کام کرنا چاہیے ، اوریہ حالات اوراشخاص کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے ۔
اورعفو درگزر میں امام احمد رحمہ اللہ تعالی کی کلام کا معنی یہ ہے کہ میں ہرظلم کرنے والے کومعاف کردونگا لیکن بدعتی کونہیں ، یہ کلام بھی اسی کے موافق ہے ، کیونکہ امام صاحب نے دیکھا کہ بدعتی لوگوں کومعاف کرنے میں فساد زيادہ ہوگا اورلوگوں میں بدعات کرنے کی جرات پیدا ہوگی ، لھذا انہوں اس کی صراحت کردی کہ وہ بدعتی کومعاف نہيں کرینگے تا کہ لوگ بدعات سے باز آجائيں اوررک جائيں ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اے ایمان والو ! تم میں سے جوشخص اپنے دین سے پھر جائے تواللہ تعالی بہت جلد ایسی قوم لائے گا جواللہ تعالی کی محبوب ہوگي اوروہ بھی اللہ تعالی سے محبت کرتے ہونگے ، وہ مسلمانوں پرتونرم دل ہونگے اورکفار پرسخت اورتیز ہونگے ، اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کرینگے ، اورکسی ملامت کرنے والی کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے ، یہ ہے اللہ تعالی کا فضل وہ جسے چاہے دے ، اللہ تعالی بڑي وسعت والا اورزبردست علم والا ہے المائدۃ ( 54 ) ۔
اورایک اورمقام پراللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہوتا ہے :
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں ، اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پرسخت اورآپس میں بڑے رحمدل ہيں ، توانہیں دیکھے کہ وہ رکوع اورسجدے کررہے ہیں ، اللہ تعالی کے فضل اوررضامندی کی جستجومیں ہیں ، ان کا نشان ان کی چہروں پرسجدے کے اثرسے ہے ، ان کی ہی مثال تورات میں ہے اوریہی مثال انجیل میں بھی ہے ، مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھو نکالا پھر اسے مضبوط کیا اوروہ موٹا ہوگيا ، پھراپنے تنے پرسیدھا کھڑا ہوگيا ، اورکسانوں کوخوش کرنے لگا ، تا کہ ان کی وجہ سے کافروں کوچڑائے ، ان ایمان والوں اورنیک اعمال والوں سےاللہ تعالی نے بخشش اوربہت بڑے ثواب کا وعدہ کررکھا ہے الفتح ( 29 ) ۔
لھذا مسلمان کویہ حق ہے کہ وہ اپنے متعلقہ حق سے معاف ودرگزر کردے ، یعنی جواس کا شخصی حق ہے ، اوراللہ تعالی کی حرمتوں کی پامالی کے وقت اسےخاموشی کا کوئي حق حاصل نہيں ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوجب بھی دومعاملوں میں اختیار دیا گيا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےدونوں میں سےآسان اورسہل کواختیار کیا جب تک وہ گناہ نہ ہوتا ، اوراگر وہ گناہ ہوتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زيادہ اس سے دور رہتے ، اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لیے کبھی بھی انتقام نہيں لیا ، لیکن جب اللہ تعالی کی حرمتوں کی پامالی کی جارہی ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے لیے اس کا اتنقام لیتے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3367 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2327 )
سوم :
جب مسلمان کمزوراورضعیف ہواورطاقت نہ رکھتا ہوتواس کےلیےکافر پرہاتھ نہ اٹھانا جائز ہے ، لھذا اگرمسلمان ضغیف وکمزور اورقوی نہیں تواس کےلیے جائز ہے کہ وہ کافرنہ لڑائي نہ کرے ، اوراللہ تعالی نے بھی ابتدائے اسلام میں جب مسلمان کمزورناتواں سے انہیں لڑائي سے روک دیا تھا :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
جان لو یقینا سچے مومنوں کے دشمنوں کوخود اللہ تعالی ہٹا دیتا ہے ، کوئي خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالی کوہرگز پسند نہیں الحج ( 38 ) ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی اس آيت کی تفسیر میں کہتے ہیں :
روایت کیاجاتا ہے کہ اس آيت کا سبب نزول یہ ہے کہ : جب مکہ مکرمہ میں مومن زيادہ ہوگئے اورانہیں کفار مکہ نے تکلیفیں دینا شروع کردیں ، اور کچھ توحبشہ کی جانب ھجرت کرگئے اوربعض مکہ کے مومنوں نے سوچا کہ جس ہاتھ بھی جوکافرلگے اگر ممکن ہوسکے تووہ اسے قتل کردے اورانہیں دھوکہ دے کرمارڈالے اوراس میں حیلہ بھی کرلے تویہ آیت کفور کے الفاظ تک نازل ہوئي جس میں اللہ تعالی نے مومنوں سے مدافعت کا وعدہ کیا اورانہیں وضاحت کے ساتھ غدروخیانت سےمنع کردیا ۔
دیکھیں : تفسیر القرطبی ( 12 /7 6 ) ۔
اورجب مومنوں کوضعف کے بعد قوت حاصل ہوگئي تواللہ تعالی نے مومنوں کوقتال کرنے کی اجازت دیتے ہوئے یہ اعلان کردیا :
جن ( مسلمانوں ) سے (کافر ) جنگ کررہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان کے اوپرظلم وستم ہوتا رہا اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کی مددونصرت کرنے پرقادر ہے الحج ( 39 ) ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی اس آيت کی تفسیر میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں :
قولہ تعالی : جن ( مسلمانوں ) سے ( کافر ) جنگ لڑ رہے ہیں کہا جاتا ہےکہ یہ اللہ تعالی کے اس فرمان یقینا اللہ تعالی مومنوں کی مدافعت کرے گا کا بیان ہے ۔
یعنی : اللہ تعالی ان مسلمانوں سے کفار کے مصائب کودور کردے گا کہ ان کے لیے قتال کرنا مباح قرار دے گا اوران کی مدد ونصرت فرمائے گا ، اوراس میں پوشیدہ کلام بھی ہے : یعنی ان لوگوں کوقتال کرنے کی اجازت ہے جوقتال کرنے کے اہل ہیں اورصلاحیت رکھتے ہیں ، لھذا کلام کے اس پردلالت کرنے کی بنا پرحذف کردیا گيا ہے ۔
ضحاک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں : جب مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام کوکفار نے تکلیفیں دیں توانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائي کرنے کی اجازت طلب کی تواللہ سبحانہ وتعالی نے یہ آیت نازل فرمادی :
یقینا اللہ تعالی ہرخیانت کرنے والے ناشکرے سے محبت نہیں کرتا ۔
اورجب مکہ سے ھجرت ہوئي تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمادی :
جن ( مسلمانوں ) سے ( کافر ) جنگ کرتے ہیں انہیں قتال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے ۔
اوریہ آيت قتال میں نازل ہونے والی پہلی آيت ہے اوران آیات کی ناسخ ہے جن میں عفودرگزر اورمعافی کا اعلان ہے ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما اورابن جبیر کہتے ہیں : یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ھجرت مدینہ کے وقت نازل ہوئي ۔
اورامام نسائي اورامام ترمذی رحمہما اللہ تعالی نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ :
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ سے نکال دیا گيا توابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے انہوں نے اپنی نبی کونکال باہر کیا ہے ، اللہ کی قسم وہ ضرور ہلاک ہوجائيں گے ، تواللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمادی :
جن ( مسلمانوں ) سے (کافر ) جنگ کررہے ہیں انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان کے اوپرظلم وستم ہوتا رہا اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کی مددونصرت کرنے پرقادر ہے ۔
توابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے : میں جان گيا کہ اب جنگ اورلڑائي ہوگي ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح سنن ترمذی ( 2535 ) میں صحیح قرار دیا ہے ۔
دیکھیں : تفسیر القرطبی ( 12 / 68 ) ۔
چہارم :
لھذا اس بنا پریہ ہے کہ اگر مسلمان کے لیے کافر سے اپنا حق لینے کے لیے بدلہ لینے میں اس کا حق ضائع ہونے سے زيادہ فساد مرتب ہوتا ہوتومسلمان کواپنا حق چھوڑ دینا چاہیے تا کہ بڑے فساد سے بچا جاسکے ۔
اورعلماء کرام نے یہ بھی ذکرکیا ہے کہ اس وقت برائي کوروکنا حرام ہوجاتا ہے جب اسے روکنے سے اس سے بھی بڑی اورعظیم برائي پیدا ہوتی ہو ۔
دیکھیں : اعلام الموقعین ( 3 / 4 ) ۔
اس کی مثال ہمارے قضیہ میں اس طرح ہے کہ :
وہ مسلمان جوان ممالک میں بستے ہیں جہاں کفار کا غلبہ ہے ، تواگر کفار کی جانب سے کسی مسلمان پرظلم وزیادتی ہوتی ہے یااس پر سب وشتم کیا جاتا ہے یا پھراسے زدوکوب کیا جائے اوراس کے بدلہ لینے سے کفار اسے اوراس کے مسلمان بھائيوں کوانتقام کا نشانہ بنائيں گے توحکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ اللہ تعالی سبحانہ وتعالی سے اجروثواب کے حصول کی نیت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلے کیونکہ اللہ تعالی کی ہاں کوئي چھوٹی یا بڑي نیکی ضائع نہیں ہوتی ۔
اوراگران کی اذیت سے زيادہ بڑا کوئي نقصان ہونے کا اندیشہ نہ ہو توپھر استطاعت رکھتے ہوئے اس ظلم کوروکنا واجب اورضروری ہوجاتا ہے تا کہ مسلمانوں اوراسلام کی عزت واحترام کا ظہورہوسکے اورکفر اورکفار کوذلت ورسوائي حاصل ہو۔
واللہ اعلم .