سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

خاوند اور بيوى كے مابين عقد نكاح ہى وراثت كا سبب ہے اس ميں دخول اور رخصتى شرط نہيں

95026

تاریخ اشاعت : 30-05-2012

مشاہدات : 4758

سوال

اگر كوئى شخص كسى عورت سے عقد نكاح كر لے اور ابھى اس كى رخصتى نہ ہوئى ہو تو خاوند يا بيوى ميں سے كوئى ايك شخص فوت ہو جانے كى صورت ميں كيا ايك دوسرے كا وارث بنےگا يا نہيں ؟
اور اگر عقد نكاح كے بعد رخصتى و دخول سے پہلے مرد فوت ہو جائے تو عورت كى عدت كا حكم كيا ہے، آيا وہ عدت گزارےگا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر عقد نكاح مكمل شروط و اركان كے ساتھ ہو جائے اور پھر رخصتى سے قبل دونوں ميں سے كوئى ايك فوت ہو جائے تو عقد نكاح باقى رہےگا، اس طرح خاوند اور بيوى دونوں ہى ايك دوسرے كے وارث بنيں گے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور تمہارے ليے اس كا نصف ہے جو تمہارى بيوياں چھوڑ جائيں اگر ان كى اولاد نہ ہو تو، اور اگر ان بيويوں كى اولاد ہو تو تمہارے ليے چوتھا حصہ ہے جو وہ چھوڑيں، وصيت كے بعد جو وہ صيت كر جائيں، يا قرض ہو اس كى بعد، اور ان بيويوں كے ليے چوتھا حصہ ہے جو تم چھوڑ كر جاؤ اگر تمہارى اولاد نہ ہو تو، ليكن اگر اولاد ہو ت وان بيويوں كے ليے آٹھواں حصہ ہے جو تم چھوڑ كر جاؤ وصيت كے بعد جو تم نے كر ركھى ہو يا قرض كے بعد النساء ( 12 ).

يہ آيت كريمہ عام ہے جو كہ رخصتى سے قبل يا رخصتى كے بعد فوت ہونے والے دونوں كو شامل ہے، اس ليے جب عقد نكاح ہو جائے اور دخول و رخصتى سے قبل زوجين ميں سے كوئى ايك فوت ہو جائے تو زوجيت باقى رہےگى، اور ان كے مابين وراثت اس آيت كے عموم كى بنا پر مشروع ہوگى، يعنى وہ ايك دوسرے كے وارث بنيں گے.

رہا مسئلہ نكاح كے بعد دخول و رخصتى سے قبل فونے كى حالت مي عدت كا تو عقد نكاح كے بعد دخول سے قبل خاوند فوت ہونے كى صورت ميں بيوى پر عدت ہوگى كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور جو لوگ تم ميں سے فوت ہو جائيں اور وہ اپنى بيوياں چھوڑيں تو وہ بيوياں چار مہينے اور دس دن عدت گزاريں البقرۃ ( 234 ).

يہ آيت دخول سے قبل يا دخول كے بعد فوت ہونے والے شخص كى بيوى كو شامل ہے، جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں ايسى بيوى كو اپنے خاوند كى وراثت كا حق ملےگا "

ماخوذ از: المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان ( 3 / 135 ).

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ نے ايك عورت جس كا خاوند رخصتى سے قبل ہى فوت ہو گيا اور اس عورت كا مہر بھى مقرر نہيں كيا تھا كے متعلق فرمايا:

" اسے پورا مہر ملےگا جتنا اس كى دوسرى عورتوں كو حاصل ہے، اور وہ عورت عدت بھى بسر كريگى، اور اسے خاوند كى وراثت بھى حاصل ہو گى "

يہ سن كر معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:

" ہمارى ايك عورت بروع بنت واشق رضى اللہ تعالى عنہا كے بارہ ميں بھى ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہى فيصلہ كرتے ہوئے سنا تھا جيسا آپ نے كيا ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2114 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1939 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب