الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالى سے دعا كرتے ہيں كہ وہ آپ كو نيك و صالح اولاد سے نوازے جس سے آپ اپنى آنكھوں كو ٹھنڈا كريں، اور وہ بچہ آپ كے ليے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اس كى خوشنودى ميں معاون ثابت ہو.
دوم:
اللہ تعالى كى رضا اور اس كا قرب حاصل كرنے كے ليے يتيم كى كفالت كرنے كا بہت زيادہ اجروثواب ہے، اور پھر اس ميں اس يتيم كے ليے رحمت و شفقت اور احسان و ديكھ بھال بھى ہے.
رہا منہ بولا بيٹا بنانے كا مسئلہ تو اس كى حرمت آيت قرآنى سے صاف ظاہر ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور نہ ہى اللہ نے تمہارے لے پالك بچوں كو تمہارا حقيقى بيٹا بنايا ہے، يہ تو تمہارے اپنے منہ كى باتيں ہيں، اللہ تعالى حق بات فرماتا ہے، اور وہ سيدھى راہ كى راہنمائى كرتا ہے، انہيں ان كے ( حقيقى ) باپوں كى طرف نسبت كر كے بلاؤ، اللہ كے نزديك پورا انصاف يہى ہے، اور اگر تمہيں ان كے باپوں كا علم ہى نہ ہو تو وہ تمہارے دينى بھائى اور دوست ہيں الاحزاب ( 4 - 5 ).
ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" كسى شخص كا جانتے ہوئے اپنى نسبت باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف كرنا كفر كے علاوہ كچھ اور نہيں، اور جس نے اپنى نسبت كسى اور قوم كى طرف كى جس ميں سے وہ نہيں تو وہ اپنا ٹھكانہ جہنم ميں بنا لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3317 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 61 ).
لےپالك بيٹا بنانے اور يتيم كى كفالت ميں فرق كے ليے آپ سوال نمبر ( 5210 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
سوم:
يتيم بچے كى نسبت آپ كے خاوند كى طرف كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ حرام كردہ تبنى يعنى منہ بولا بيٹا بنانے ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كے نتيجہ ميں وراثت وغيرہ ميں كئى ايك خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اور يتيم كى كفالت كرنے ميں آپ كى رغبت اس حرام كام كو مباح نہيں كرسكتى.
اس بنا پر اگر يتيم كى كفالت لے پالك اور متبنى يعنى منہ بولا بيٹا بنائے بغير نہ ہوتى ہو اور اس ميں آسانى نہ ہو سكے تو آپ صبر كريں، اور انتظار كريں كہ اللہ تعالى اس ميں آسانى پيدا كر دے اور مشكل كو دور كرے، كيونكہ اللہ تعالى كے خزانے بھرے ہوئے ہيں.
اور ہر چيز اللہ تعالى كے ہاتھ ميں ہے، اور جو شخص دروازہ مستقل طور پر كھٹكاتا رہے تو اس كے ليے وہ دروازہ كھل جاتا ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو وہ اپنے فضل و كرم سے نوازے.
واللہ اعلم .