الحمد للہ.
اليكٹرانك گيمز ميں دو طرح سے خطرہ ہے:
پہلى وجہ:
گيم كے طريقہ اور گيم بنانے والوں نے جس صيغہ پر گيم تيار كى ہے.
دوسرى وجہ:
اس گيم كو استعمال كرنے، اور لوگوں كا اسے اپنانے كى كيفيت ميں.
گيم كے طريقہ اور اس ميں جو تصاوير اور مراحل و اہداف پائے جاتے ہيں: اس كے متعلق گيم تيار كرنے والى كمپنى ذمہ دار ہے، وہ ہى ان گيمز كو بہترين اور قيمتى اہداف كى طرف لے جانے كى استطاعت ركھتى ہے، كہ گيم كھيلنے والے كے ذہن ميں بہترين اخلاق و عادات پيدا كى جائيں، اور سوج و بچار اور غور و فكر اور ذہانت كو ابھارا جائے، اور اچانك پيدا ہو جانے والے حالات حسن تصرف اور لين دين كا بہتر طريقہ سكھايا جائے اور تربيت كى جائے، اس كے ساتھ ساتھ ان كھيلوں كو كھيلنے والے كے ليے اس ميں مباح قسم كى تفريح اور نفع اور تسلى و تشفى ہو.
بلا شك اليكٹرانك گيمز كا پروگرام تيار كرنے والے كو ان كھيلوں كى تفصيل بہت زيادہ دقيق طرح سے معلوم ہوتى ہے جس گيم كو وہ تيار كر گے فروخت كرنا چاہتے ہيں، اور وہ اس چيز كا ادراك كر سكتے ہيں جس كا مطالبہ مربى كرتے ہيں كہ استعمال كى نگرانى اور پروڈكٹ صحيح ہو، اور خاص كر جبكہ ريسرچ اور سروے بہت زيادہ بڑھ چكا ہے،اور يہ مطالبہ بھى بہت زيادہ ہو رہا ہے كہ بچوں كو گيمز كے تاجروں اور كمپنيوں سے نجات دلائى جائے جو صرف مال بٹورنا چاہتے ہيں.
چنانچہ وہ گيمز جو صرف قتل كى عادى بناتى ہيں، يا پھر چور اور زيادتى كرنے كى يہ ان كھيلوں كى طرح نہيں جو بچے ميں شجاعت و بہادرى اور حرام سے دفاع،اور امانت كى حفاظت اور صاحب حق كو ا سكا حق واپس دلوانے كا باعث بنے.
اسى طرح وہ كھيليں اور گيمز جو تفكير و سوچ پر مقيد ہيں، اور ذہن كو محدود اعمال اور ديكھنے ميں محصور كر كے ركھ ديں، يہ ان كھيلوں كى طرح نہيں جو ذہن كو غور و فكر اور نتائج اور نئى سوچ كى طرف لے جائيں.
ليكن ہم يہ طمع اور خواہش ركھتے ہيں كہ يہ كھيل نيك و صالح قسم كى عادات و اطور پيدا كرنے كى طرف جائيں، مثلا اطاعت و فرمانبردارى كى پابندى جس ميں سب سے اہم ترين نماز وغيرہ كى پابندى ہے، اور وقت كى قدر و حفاظت، اور علم تدريس كا اہتمام، اور سچائى و امانت اور وفادارى وغيرہ كو اختيار كرنا.
ان اقدار اور اخلاق كى كلى تركيب كھيل اور گيمز كى تيارى ہى نہيں بلكہ اس گيم كو كھيلنےاوراستعمال كرنے والوں كا بھى كسى طريقہ سے خيال كرنا ہوگا، تا كہ اسے كھيلنے والوں كے ذہن ميں بيٹھ جائے، جو كہ غالبا ابھى عمر كے ابتدائى حصہ ميں ہيں.
خطرناك چيز تو يہ ہے كہ ان گيمز كى تقليد اور نقل كرنے كى كوشش كرنا جو اخلاقى اقدار كى تجارت كرنے والى كمپنياں تيار كرتى ہيں، جن كا مقصد گيمز كى تيارى ميں مقصد صرف نفع و شہوت، اور زيادہ مال كمانا ہوتا ہے، چاہے وہ خاندان كى سطح پر ہو يا معاشرتى سطح پر.
اور اس طرح كے پروگرام ہمارے پاس غير مسلموں كى جانب سے آتے ہيں، اور افسوس تو يہ ہے كہ ايسے كھيل اور گيمز مسلمان كمپنيوں كى جانب سے بھى ماركيٹ ميں آتے ہيں جو كمپنياں اپنى دينى تعليم اور معاشرتى اقدار سے غافل ہو چكى ہيں.
اس ليے آپ ان گيمز ميں بہت سارى ـ اگر ہم اكثريت كا نہ كہيں ـ گيمز جوا اور جادو، اور موسيقى كو مباح كيے ہوئے ہيں،اور ان ميں صليب كى تصاوير، اور خيالى قصے جو كہ غيبى چيزوں مثلا جنت و جہنم، اور فرشتے، اور موت كے اٹھايا جانے جيسى غيبى چيزوں پر ايمان ميں خلل پيدا كرنے كا باعث بنتى ہيں.
اور اگر مسلمان پروگرامر يعنى گميز تيار كرنے والا مسلمان شخص اس پر غور كرے تو اسے يہ معلوم ہو گا كہ انٹرنيشنل پروگرامز كمپنياں اپنے اعتقادات اور اپنے دين ـ باوجود اس دين كے باطل ہونے كے ـ كى دعوت دينے پر بہت زيادہ حريص ہيں، اوروہ اپنے اعتقادات لوگوں كے ذہنوں ميں بٹھانے كى كوشش كر رہى ہيں، تو يہ مسلمان شخص اپنے دين، اور اخلاق فاضلہ اپنے اس پروگرام ميں كيوں دينے سے غافل ہے ؟ !
سوال نمبر ( 71170 ) كے جواب ميں كارٹون فلم كا حكم بيان كيا گيا ہے، اور وہاں اوپر بيان كردہ افكار ميں سے كچھ كو بيان كيا گيا ہے، آپ اس كى مطالعہ كريں.
اور ان گيمز كو استعمال كرنے، اور اسے عادت بنانے كے طريقہ سے جو خطرہ لاحق ہے، اس كے متعلق كلام بہت وسيع ہے: ہو سكتا ہے اس كے ساتھ پروگرامر كا تعلق نہ ہو، ليكن اس كے استعمال كا افضل طريقہ جس سے فوائد حاصل ہوں، اور نقصانات ختم ہوں كى راہنمائى كرنے ميں كيا حرج ہے، جب كمپنى كوئى گيم تيار كرے تو اس كى ابتدا ميں ان تعليمات كو نشر كرے؟
يا پھر يہ تعليمات سى ڈى كے ساتھ ايك ورق پر لكھ كر پرنٹ كر دى جائيں، اور اسى طرح اس سى ڈى كو اپنے بچوں كے ليے خريدنے والے والدين كے ليے بھى كچھ راہنمائى كر دى جائے.
اور اس سے مقصود صرف يہ ہو كہ اس قسم كى تفريح سے نفع مند توجيہ كى راہنمائى كى جائے، تا كہ بچوں كے اوقات پرزيادتى نہ ہو، اور يہ گيمز ان كے دينى اور دنياوى واجبات ميں اور ان كے مابين حائل نہ ہو.
اور اسے كثرت و مبالغہ كے ساتھ استعمال سے متوقع خطرات سے تنبيہ كى جائے: مثلا آنكھوں كى بينائى كم ہونے كا خطرہ، اور كمر، اور كان وغيرہ كو پيش آنے والے خطرات.
اور اسى طرح ہر كھيل كے ساتھ يہ بھى تنبيہ كى جائے كہ يہ كھيل كس عمر كے ليے مناسب ہے، كيونكہ يہ تو ہر ايك كو معلوم ہے كہ بڑوں كے كھيلنے والى گيمز بچوں كے كھيلنے كے قابل نہيں ہوتيں، اور اسى طرح بچوں كى گيمز بڑوں كے ليے نہيں، اس ليے ہر ايك كے ليے مناسب چيز كا التزام كرنے كى حرص ركھنى چاہيے، اور يہ سب كچھ راہنمائى كا محتاج ہے، جسے صرف وہى پروگرامر جانتا ہے جو اللہ تعالى سے ڈرنے والا ہو، اور جو كامل ہوش و حواس ركھتا ہو، اور اپنے اور دينى معاشرے كى مسؤليت كى ذمہ دارى كا احساس كرنے والا ہو.
خلاصہ:
جو پروگرامر مندرجہ بالا شرعى اصول و ضوابط كا التزام كريگا، اور اپنے كام ميں ان اشياء كى كا خيال ركھےگا جس كى اوپر تنبيہ كى گئى ہے، تو پھر وہ جو كچھ بھى بنائے ـ ان شاء اللہ ـ اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ اميد ہے اسے شر كےمقابلے ميں خير و بھلائى پھيلانے كى بنا پر اجروثواب حاثل ہوگا، اور اللہ سبحانہ و تعالى اس كے دل اور اس كے ارادہ پرمطلع ہے.
اور اليكٹرانك گيمز كا حكم جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 2898 ) كے جواب كا بھى آپ مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .