الحمد للہ.
فطرانہ ميں وہ اشياء دينى واجب ہيں جنہيں لوگ بطور غذا استعمال كرتے ہيں؛ اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عيد الفطر كے دن ايك صاع غلہ فطرانہ ديا كرتے تھے "
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: اور ان ايام ميں ہمارى غذا جو، منقہ، پنير، اور كھجور ہوتى تھى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1510 ).
اس ليے اگر كسى علاقے كے لوگوں كى غذا گوشت ہو تو فطرانہ ميں گوشت دينا جائز ہو گا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى علاقے كے لوگ ان اصناف ميں سے كوئى ايك بھى بطور غذا استعمال كرتے ہوں تو بلا شك وہ اپنى غذا ميں سے ہى فطرانہ ادا كر سكتے ہيں، اور كيا ان اشياء كے علاوہ كسى اور چيز ميں فطرانہ دينا جائز ہو گا جسے وہ بطور غذا استعمال كرتے ہوں، مثلا اگر ا نكى غذا چاول، يا مكئى ہو تو كيا ان كے ليے جو يا گندم ہى فطرانہ ميں دينا ہو گى يا كہ چاول يا مكئى بھى ادا كر سكتے ہيں ؟
اس ميں اختلاف مشہور ہے، اور اقوال ميں صحيح قول يہ ہے كہ: وہ جو چيز بطور غذا استعمال كرتے ہيں وہى فطرانہ ميں دے سكتے ہيں، چاہے وہ چيز ان اصناف ميں شامل نہ ہوتى ہو، اكثر علماء مثلا شافعى وغيرہ رحمہ اللہ كا قول يہى ہے؛ كيونكہ زكاۃ و صدقات ميں اصل يہ ہے كہ يہ فقراء و مساكين كى غم خوارى كے ليے فرض كى گئى ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
درميانے درجہ كا غلہ جو تم اپنے اہل و عيال كو كھلاتے ہو .
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ ميں ايك صاع كھجور، يا ايك صاع جو فرض كيا ہے؛ كيونكہ اس وقت اہل مدينہ كى غذا يہى چيزيں تھيں، اور اگر ا نكى غذا كوئى اور چيز ہوتى بلكہ كوئى اور چيز بطور غذا استعمال كرتے ہوتے تو انہيں اس چيز كى ادائيگى مكلف نہ كرتے جو ا نكى غذا ہى نہيں، جيسا كہ اللہ تعالى نے انہيں كفارات ميں ا سكا حكم نہيں ديا " انتہى بتصرف
ديكھيں: مجموع الفتاوى ابن تيميۃ ( 25 / 68 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" مدينہ ميں لوگوں كى اكثر غذا يہى تھى، اور اگر كسى ملك يا علاقے كے لوگوں كى غذا اس كے علاوہ كوئى اور چيز ہو تو وہ اپنى غذا كا ايك صاع فطرانہ دينگے، مثلا جن كى غذا مكئى يا چاول، يا انجير وغيرہ دوسرا غلہ ہو.
اور اگر ا نكى غذا غلہ اور دانے نہيں مثلا دودھ، گوشت، مچھلى وغيرہ تو وہ فطرانہ ميں وہى چيز دينگے جسے وہ بطور غذا استعمال كرتے ہيں چاہے كوئى چيز بھى ہو، جمہور علماء كا قول يہى ہے، اور صحيح بھى بھى يہى ہے كہ اس كے علاوہ كوئى اور قول نہيں كہا جا سكتا.
كيونكہ فطرانہ كا مقصد تو عيد كے موقع پر اسى جنس سے مسكين اور فقير كى ضرورت پورى كرنا، اور اس كى غمخوارى كرنا ہے، جو جنس اس علاقہ كے لوگ بطور غذا استعمال كرتے ہوں، اور بنا پر آٹا بطور فطرانہ دينا جائز ہوگا، چاہے اس ميں كوئى حديث صحيح ثابت نہيں " انتہى.
ديكھيں: اعلام الموقعين ( 3 / 12 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ليكن اگر لوگوں كى غذا نہ تو دانے ہوں، اور نہ ہى پھل، بلكہ وہ گوشت كو بطور غذا استعمال كرتے ہوں، مثلا جو لوگ قطب شمالى ميں رہتے ہيں، ا نكى اكثر طور پر غذا گوشت ہے، تو صحيح يہى ہے كہ فطرانہ ميں ا سكا دينا جائز اور كفائت كر جائيگا " انتہى بتصرف.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 182 ).
واللہ اعلم .