جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كمپنى كى اشياء ذاتى اغراض كے ليے استعمال كرنا

تاریخ اشاعت : 13-06-2005

مشاہدات : 6791

سوال

ہم ايك جنرل كمپنى ميں كام كرتے اور اسلامى مضامين كى فوٹو كاپى كے ليے كمپنى كے آلات استعمال كرتے ہيں، تاكہ ان مضامين سے ہمارے علاوہ دوسرے لوگ مستفيد ہوں، اور اسى طرح مختلف علماء كرام كے دروس اور تقارير اور قرآن كريم كى تلاوت سننے كے ليے كمپيوٹر استعمال كرتے ہيں، ليكن اس سے كام ميں كوئى خلل نہيں پڑتا بلكہ كام سے فارغ ہو كر سنتے ہيں، تو كيا يہ ہمارے ليے جائز ہے، اور كيا جو كچھ پہلے ہو چكا ہے اس كے ليے توبہ ہى كافى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كام كرنے والى جگہ كى فوٹو مشين وغيرہ كا استعمال جائز نہيں، اگرچہ اسلامى مضامين تقسيم كرنے كى غرض سے ہى فوٹو كاپى كيوں نہ كيے جائيں، كيونكہ ملازم ان اشياء كا امين ہے جو اسے ملازمت ميں دى گئى ہيں، اور جو كام اس كے ذمہ لگايا گيا ہے اس كا بھى وہ امين ہے، لھذا جس كا اسے امين بنايا گيا ہے اسے كام كے علاوہ كہيں اور صرف كرنا جائز نہيں ہے.

اور اگر كمپنى پرائيويٹ ہے اور كسى معين شخص كى ملكيت ہے، اور مالك اس طرح كے استعمال كى اجازت ديتا ہے تو پھر كوئى حرج نہيں، كيونكہ يہ مالك كى جانب سے فنڈ كے زمرہ ميں آئے گا.

ليكن اگر كمپنى سركارى ہےتو پھر جائز نہيں، چاہے كام ميں آپ كا افسر بھى اس كى اجازت دے دے، كيونكہ اس چيز كا وہ خود مالك نہيں تو كسى دوسرے كے ليے كيسے مالك بن سكتا ہے.

اوراسى طرح تقارير اور قرآن مجيد سننے كے ليے كمپيوٹر كا استعمال كرنا خاص كر جب اس كے ليے انٹرنيٹ وغيرہ استعمال كرنے كى ضرورت ہو جس ميں دفتر كا خرچ ہوتا ہو.

ليكن اگر يہ چيز اضافى خرچہ نہ مانگے تو پھر بھى اس ميں شبہ تو قائم ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں كمپيوٹر كا استعمال كام كے علاوہ دوسرى غرض كے ليے ہو رہا ہے.

حاصل يہ ہوا كہ اس طرح كا اقدام جائز نہيں، اور آپ كو چاہيے كہ جو كچھ آپ كر چكے ہيں، اس پر توبہ كريں اور جو خرچ كيا ہے اسے واپس كريں.

اگر آپ نے فوٹو كاپى كے ليے كاغذات ليے ہيں، تو اتنے كاغذات واپس كريں، اور اسى طرح فوٹو كاپى مشين كا استعمال بھى واپس كريں، اور اگر آپ فوٹو كاپى مشين كے استعمال كى قيمت كا تخمينہ نہيں لگا سكتے تو اتنا تخمينہ لگائيں جس سے برى الذمہ ہو سكيں، اور اس كے بدلے ميں آپ دفتر كى ضرورت كے ليے كاغذات استعمال كر سكتے ہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ذاتى اغراض كے ليے سركارى گاڑياں استعمال كرنے كا حكم كيا ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

سركارى گاڑياں اور دوسرى سركارى اشياء مثلا فوٹو كاپى مشين، اور پرنٹر وغيرہ ذاتى اغراض كے ليے استعمال كرنا جائز نہيں ہيں، كيونكہ يہ عام مصلحت كے ليے ہيں نہ كہ اپنى خاص ضروريات كے ليے، كيونكہ جب يہ خاص اپنى ضروريات كے ليے استعمال كى جائيں تو يہ عام لوگوں پر زيادتى اور ظلم ہے، كيونكہ يہ چيز تو عام مسلمانوں كے ليے ہے، كسى ايك كے ليے بھى اپنى خاص ضرورت كے ليے استعمال كرنا جائز نہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غلول حرام كيا ہے، يعنى انسان غنيمت ميں سے كوئى چيز اپنے ليے خاص كر لے، كيونكہ غنيمت عام ہے.

لھذا واجب اور ضرورى يہى ہے كہ جب بھى كوئى شخص كسى كو سركارى اشياء يا گاڑى وغيرہ اپنى خاص اور ذاتى ضروريات ميں استعمال كرتا ہوا ديكھے تو اسے نصيحت كرے، اور اسے بتائے كہ يہ حرام ہے، اگر تو اللہ تعالى اسے ہدايت نصيب كردے تو يہى مطلوب بھى يہى ہے، اور اگر نہ كرے تو اس كے متعلق سركارى ادارے كو رپورٹ كرنى چاہيے، كيونكہ يہ نيكى و بھلائى اور تقوى و پرہيزگارى ميں معاونت ميں سے ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے فرمايا:

" اپنے بھائى كى مدد و معاونت كرو چاہے وہ ظالم ہو يا مظلوم "

صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ تو مظلوم كے بارہ ميں ہے ليكن ظالم كى كيسے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اسے ظلم كرنے سے منع كرو اور روكو، تو يہ آپ كى اس كے ساتھ معاونت و مدد ہے"

يا يہى تو اس كى مدد ہے"

اور شيخ رحمہ اللہ تعالى سے يہ بھى سوال ہوا كہ:

اگر اس كا افسر اس سے راضى ہو، تو كيا پھر بھى كوئى حرج ہے؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

اگرچہ اس كا افسر اس پر راضى بھى ہو، كيونكہ افسر خود اس چيز كا مالك نہيں تو پھر دوسرے كو اس كى اجازت دينے كا مالك كيسے ہو سكتا ہے.

ديكھيں: لقاء الباب المفتوح س ( 238 ).

مزيد معلومات اور تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 40509 ) اور ( 4651 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب