بدھ 26 جمادی اولی 1446 - 27 نومبر 2024
اردو

كيا مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كى جانب سے طلاق كى نيت سے نكاح كرنے كے جواز كا فتوى صادر ہوا ہے جيسا كہ ابن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے ؟

تاریخ اشاعت : 05-03-2013

مشاہدات : 6685

سوال

فتوى نمبر ( 111841 ) ميں آپ نے كہا ہے كہ مستقل فتوى كميٹى كى رائے ميں طلاق كى نيت سے نكاح باطل ہے، اور يہ متعہ كے مشابہ ہے، ليكن ميں نے " فتاوى اسلاميۃ " كتاب تيسرى جلد صفحہ نمبر ( 235 ) ميں شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا فتوى پڑھا ہے وہ كہتے ہيں:
" مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى نے طلاق كى نيت سے طلاق كے وقت كى تحديد كيے بغير نكاح جائز ہونے كا فتوى صادر كيا ہے، اور وہ غريب الديار نوجوانوں كو اس طريقہ كى شادى كرنے كى نصيحت كرتے ہيں، ممكن ہے كہ ان كے مابين محبت پيدا ہو جائے اور اللہ تعالى انہيں اولاد دے تو شادى قائم رہے، اور يہ فتوى ابن باز رحمہ اللہ كى صدارت ميں جارى ہوا اور وہ بھى اس فتوى ميں شريك تھے، اور جمہور علماء كرام كا قول بھى يہى ہے جيسا كہ موفق الدين ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " المغنى " ميں بيان كيا ہے، اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ يہ نكاح متعہ ميں شامل نہيں ہوتا، برائے مہربانى آپ اس تناقض كى وضاحت فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مستقل فتوى كميٹى نے طلاق كى نيت سے شادى كى ممانعت كرتے ہوئے اس پر حرام ہونے كا حكم لگايا ہے، سوال نمبر ( 91962 ) كے جواب ميں اس فتوى كو بيان كر چكے ہيں اس فتوى پر شيخ ابن باز رحمہ اللہ كے دستخط نہيں، بلكہ كميٹى كے سربراہ شيخ عبد العزيز آل شيخ كے دستخط ہيں، جو اس بات كى دليل ہے كہ يہ فتوى شيخ ابن باز رحمہ اللہ كى وفات كے بعد صادر ہوا ہے.

يہاں ہم يہ متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ يہ فتوى شيخ صالح آل منصور كى " الزواج بنيۃ الطلاق " نامى كتاب كے صفحہ ( 66 ) ميں آيا ہے جس ميں غلطى سے شيخ ابن باز رحمہ اللہ كا نام چھپ گيا ہے؛ ليكن صحيح شيخ عبد العزيز آل شيخ ہے.

دوم:

شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے يہ فتوى مستقل فتوى كميٹى كى جانب منسوب كيا ہے:

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ايك بھائى كہتا ہے كہ اس نے آپ كے متعلق پڑھا ہے كہ آپ طلاق كے وقت كى تحديد كيے بغير طلاق كى نيت سے شادى كو جائز قرار ديتے ہيں، اور آپ غريب الديار نوجوانوں كو اس طرح كى شادى كرنے كى نصحيت كرتے ہيں، كہ ممكن ہے ان كے مابين محبت و مودت پيدا ہو جائے يا پھر اللہ انہيں اولاد سے نوازے تو يہ شادى قائم رہے، كيا يہ بات صحيح ہے برائے مہربانى اس كى وضاحت فرمائيں، اللہ تعالى آپ كو اجر و ثواب سے نوازے.

شيخ رحمہ اللہ نے جواب ديا:

" يہ فتوى سعودى عرب كى مستقل فتوى اور علمى ريسرچ كميٹى نے ميرى سربراہى اور شراكت سے جارى كيا ہے.. "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 235 ).

شيخ رحمہ اللہ سے يہ بھى سوال كيا گيا:

ميں نے ايك كيسٹ ميں آپ كا فتوى سنا ہے كہ غريب الديارى معين مدت كى ني تركھتے ہوئے ميں شادى كرنى جائز ہے؛ مثلا دورہ ختم ہونے تك يا پھر جس ملك ميں اسے بطور مبعوث بھيجا گيا اس مدت تك كے ليے ... ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا

" جى ہاں مستقل فتوى كميٹى سے ميرى سربراہى ميں طلاق كى نيت سے شادى كے جواز كا فتوى صادر ہوا ہے، يعنى يہ اس شخص اور اس كے رب كے مابين ہے كہ جب وہ غريب الديار ہو اور اس كى نيت ہو كہ اس جب تعليم ختم ہوگى يا ملازمت ختم ہونے وغيرہ پر اسے طلاق دے دےگا تو جمہور علماء كرام كے ہاں اس ميں كوئى حرج نہيں ہے، يہ نيت اس شخص اور اس كے رب كے مابين ہو نہ اور شرط نہ ہو .... "

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 236 ).

اور شيخ ابن محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" شيخ عبد العزيز اور اسى طرح مستقل فتوى كميٹى نے بيان كيا ہے كہ: غريب الديار شخص كے ليے فحاشى ميں پڑنے كے خدشہ سے بچنے كے ليے طلاق كى نيت سے شادى كرنا جائز ہے....

ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 60 ) سوال نمبر ( 9 ).

مستقل فتوى كميٹى كے طلاق كى نيت سے جواز اور بعد ميں ممانعت كے فتوى ميں موافقت و تطبيق اس طرح ممكن ہے كہ: جواز كا فتوى شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كى سربراہى كے وقت تھا، اور يہ " فتاوى اللجنۃ الدائمۃ " كى كتاب ميں نشر نہيں ہوا، اور بعد ميں طلاق كى نيت سے شادى كى حرمت ميں صادر شدہ بحوث اور كتابيں صادر ہونے اور جواز كے قائلين كا عدم جواز كے فتوى پر مطئمن ہونے كے بعد مستقل فتوى كميٹى كى جانب سے اس كى حرمت ميں فتوى جارى ہوا اور فتاوى اللجنۃ الدائمۃ كى كتاب ميں بھى نشر ہوا ہے يہى فتاوى جات معتمد ہيں.

يہ علم ميں رہے كہ ہميں اس فتوى پر دستخط كرنے والے علماء كرام كے ناموں كا تو علم نہيں، تا كہ يہ كہا جا سكے كہ انہوں نے جواز كے قول سے رجوع كرتے ہوئے ممانعت كا قول اختيار كر ليا ہے.

اور پھر " المجمع الفقھى الاسلامى " رابطہ عالم اسلامى كے تابع اسلامى فقہ اكيڈمى كا قول بھى اس ممانعت كى تائيد كرتا ہے، جيسا كہ يہ قول سوال نمبر ( 111841 ) كے جواب ميں بيان ہوا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب