الحمد للہ.
كچھ علماء كرام طلاق كى نيت سے شادى كرنا باطل قرار ديتے ہيں، كيونكہ يہ وقتى شادى ہے اس ليے متع كے مشابہ ہوئى.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كى بھى يہى رائے ہے ہم نے ان كا فتوى سوال نمبر ( 91962 ) كے جواب ميں نقل كيا ہے آپ اس كا مطالعہ كر سكتے ہيں.
اور كچھ علماء كرام كى رائے يہ ہے كہ يہ شادى صحيح ہے ليكن يہ حرام اس ليے ہے كہ اس ميں دھوكہ و فراڈ پايا جاتا ہے كيونكہ اگر عورت اور اس كے ولى كو اس كا علم ہو جائے كہ وہ شخص طلاق كى نيت سے شادى كر رہا ہے كہ كچھ ايام يا مہينے يا سال كے بعد اسے طلاق دے دے گا تو وہ اس شادى كى موافقت ہى نہيں كرينگے.
اس رائے كے حامل علماء ميں شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ شامل ہيں، ان سے دريافت كيا گيا:
ايك شخص كسى دوسرے ملك جانا چاہتا ہے كيونكہ اس كى ڈيوٹى وہاں لگى ہے اور وہ اپنى عفت و عصمت محفوظ ركھنے كے ليے كچھ عرصہ كے ليے شادى كرے اور بعد ميں طلاق دے دے ليكن بيوى كو نہ بتائے كہ وہ اسے طلاق دے دے گا تو اس شادى كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" طلاق كى نيت سے اس نكاح كى دو حالتيں ہيں:
يا تو عقد نكاح ميں شرط ركھى گئى ہو كہ يہ نكاح ايك ماہ يا سال يا تعلم مكمل ہونے تك ہو گى، تو يہ نكاح متعہ كہلاتا ہے اور يہ حرام ہے.
يا پھر وہ اس كى نيت ركھتا ہے ليكن شرط نہيں لگاتا، تو اس ميں مسلك حنبلى ميں مشہور يہى ہے كہ ايسا كرنا حرام ہے اور يہ عقد نكاح فاسد ہو گا، كيونكہ يہ كہتے ہيں: جس چيز كى نيت كى گئى ہے وہ مشروط كى طرح ہى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہى جو اس نے نيت كى "
اور اس ليے كہ اگر كسى مرد نے كسى ايسى عورت سے شادى كى جس كو تين طلاق ہو چكى ہوں اور وہ اسے حلال كرنے كے ليے شادى كرے پھر اسے طلاق دے تو يہ نكاح فاسد ہو گا، اور اگرچہ اس ميں شرط نہ بھى ہو، كيونكہ نيت كردہ چيز مشروط كى طرح ہى ہے.
چنانچہ اگر نيت حلال كرنے كى ہو تو يہ نكاح فاسد ہو جائيگا، تو اسى طرح متع كى نيت بھى نكاح كو فاسد كر ديتى ہے حنابلہ كا قول يہى ہے.
اور اس مسئلہ ميں اہل علم كا دوسرا قول يہ ہے كہ:
اگر كسى شخص كى نيت ميں ہو كہ جب وہ يہ ملك چھوڑ كر جائيگا تو بيوى كو طلاق دے دے گا اس نيت سے شادى كرنا صحيح ہے، مثلا وہ لوگ جو تعليم وغيرہ كے ليے دوسرے ملك جاتے ہيں.
علماء كا كہنا ہے: اس ليے كہ اس نے شرط نہيں لگائى، اور اس نكاح اور نكاح متعہ ميں فرق يہ ہے كہ نكاح متعہ كى مدت جب ختم ہو جائے تو اس ميں عليحدگى ہو جاتى ہے چاہے خاوند چاہے يا انكار كرے، ليكن اس نكاح ميں ممكن ہے كہ جب خاوند اپنى بيوى ميں رغبت ركھتا ہو تو وہ اس كے پاس باقى رہے اور اسے وہ طلاق نہ دے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا ايك قول يہى ہے.
اور ميرے نزديك يہ صحيح ہے متعہ نہيں كيونكہ اس پر متعہ كى تعريف لاگو نہيں ہوتى، ليكن يہ اس اعتبار سے حرام ہى كہ اس ميں بيوى اور اس كے خاندان والوں كے ليے دھوكہ و فراڈ پايا جاتا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دھوكہ و فراڈ حرام كيا ہے، كيونكہ اگر بيوى كو يہ علم ہو جائے كہ يہ شخص تو اس سے صرف اتنى مدت كے ليے شادى كر رہا ہے تو وہ اس سے كبھى بھى شادى نہ كرے، اور اسى طرح عورت كے خاندان والوں كو علم ہو جائے تو وہ بھى اس كى شادى نہ كريں.
اور اسى طرح وہ شخص خود بھى اس پر راضى نہيں ہو گا كہ اس كى بيٹى كى كسى ايسے شخص سے شادى ہو جس كى نيت ميں ضرورت ختم ہونے كے بعد طلاق دينا ہو، تو پھر وہ اپنے ليے كس طرح اس معاملہ پر راضى ہو رہا ہے كہ اگر اس كے ليے ساتھ وہى معاملہ كيا جائے تو وہ اپنے ليے اسے پسند نہ كرے يہ ايمان كے خلاف ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے اس وقت تك كوئى مومن ہى نہيں ہو سكتا جب تك وہ اپنے بھائى كے ليے بھى وہى كچھ پسند نہ كرے جو اپنے ليے پسند كرتا ہے "
اور اس ليے كہ ميں نے سنا ہے كچھ لوگوں نے اس قول كو ايسے معاملہ كے ليے ذريعہ اور وسيلہ بنا ليا ہے جو كسى بھى عالم دين نے نہيں كہا، وہ يہ كہ وہ دوسرے ملكوں ميں صرف شادى كے ليے جاتے ہيں، وہ اس ملك ميں شادى كے ليے جاتے ہيں اور پھر جتنا اللہ چاہے وہاں اس بيوى كے ساتھ رہتے ہيں جس كے متعلق ان كى نيت تھى كہ يہ شادى وقتى ہے، اور پھر واپس آ جاتے ہيں، اس مسئلہ ميں يہ عظيم ممانعت ہے اور اس كا دروازہ بند كرنا زيادہ بہتر ہے كيونكہ اس ميں دھوكہ و فراڈ پايا جاتا ہے اور اس ليے بھى كہ اس طرح كا دروازہ كھول دے گا، كيونكہ لوگ جاہل ہيں اور اكثر لوگ كو خواہش اللہ كى حدود كى پامالى سے نہيں روكےگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 757 - 758 ).
اور فقہ اكيڈمى كا فيصلہ ہے:
" طلاق كى نيت سے شادى كرنا يہ ہے كہ: ايسى شادى جس ميں نكاح كے اركان اور شروط پائى جائيں اور خاوند كے دل ميں متعين مدت كے بعد طلاق كى نيت ہو مثلا دس دن يا كوئى مجہول مدت ہو؛ مثلا تعليم مكمل ہونے يا ضرورت پورى ہونے كى غرض سے جس كى بنا پر وہاں آيا ہے اس كے بعد طلاق دے گا.
نكاح كى يہ قسم باوجود اس كے كہ كچھ علماء نے اس كو جائز قرار ديا ہے ليكن فقہ اكيڈمى اس كى ممانعت كرتى ہے؛ كيونكہ يہ دھوكہ و فراڈ پر مبنى ہے، كيونكہ جب عورت كو يا اس كے ولى كو علم ہو جائے كہ اس كو طلاق دى جائيگى تو وہ كبھى بھى اس عقد نكاح كو قبول نہ كريں.
اور اس ليے بھى كہ يہ بہت سارى عظيم خرابيوں اور خطرناك قسم نقصانات كا باعث بنے گا جس سے مسلمانوں كى شہرت خراب ہو گى.
اللہ عزوجل ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
بہر حال طلاق كى نيت سے شادى كرنا حرام ہے، اور اس ميں يہ تردد ہے كہ آيا يہ نكاح متعہ كى طرح اصل ميں باطل ہے يا كہ دھوكہ و فراڈ كى بنا پر نكاح حرام ہو گا.
واللہ اعلم .