جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

جسم گدوانے اور ابرو كے بال اكھيڑنے ا ور دانت رگڑ كر باريك كرنے كى ممانعت كے دلائل

تاریخ اشاعت : 04-04-2008

مشاہدات : 14778

سوال

عورتوں كا ابرو كے بال اكھيڑنے كے متعلق اسلام ميں كيا حكم ہے، اور اگر ممكن ہو سكے تو اس موضوع كے متعلقہ احاديث بھى ذكر كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كے ليے ابرو كے بال اكھيڑنے اور كاٹنا يا زائل كرنا حرام كيا ہے، اور لغت ميں اسے النمص كہا جاتا ہے جو كہ درج ذيل دلائل كى بنا پر حرام ہے:

1 - اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يہ تو اللہ تعالى كو چھوڑ كر صرف عورتوں كو پكارتے ہيں، اور دراصل يہ صرف سركش شيطان كو پوجتے ہيں

جس پر اللہ تعالى نے لعنت كى ہے، اور اس نے يہ كہہ ركھا ہے كہ ميں تيرے بندوں ميں سے مقرر شدہ حصہ لے كر رہونگا

اور انہيں سيدھى راہ سے بہكاتا رہونگا، اور باطل اميديں دلاتا رہوں گا، اور انہيں سكھاؤں گا كہ جانوروں كے كان چير ديں، اور ان سے كہوں گا كہ اللہ تعالى كى بنائى ہوئى صورت كو بگاڑ ديں، سنو! جو شخص اللہ كو چھوڑ كر شيطان كو اپنا رفيق بنائےگا وہ صريحا نقصان ميں ڈوبےگا النساء ( 117 - 119 ).

اس آيت ميں شاہد يہ ہے كہ: شيطان مردود لوگوں كو اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كا حكم دےگا، اور بعض مفسرين نے اس كى تفسير يہ كى ہے كہ اس سے مراد جسم گدوانا، اور ابرو باريك كرنا، اور دانت رگڑ كر ان ميں فاصلہ كرنا ہے، جيسا كہ آگے بيان بھى ہو گا.

امام قرطبى رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:

ايك گروہ كا كہنا ہے: يہ جسم گدوانے اور اس كے قائم مقام جو خوبصورت بننے كى كوشش كرنے كے طرف اشارہ ہے، ابن مسعود اور حسن كا يہى قول ہے.

ديكھيں: تفسير قرطبى ( 5 / 392 ).

2 - عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" اللہ تعالى جسم گودنے، اور جسم گدوانے، اور ابرو كے بال اكھيڑنے، اور خوبصورتى كے ليے دانتوں كو رگڑ كر ان ميں فاصلہ كرنے اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كرنے واليوں پر لعنت كرے "

تو يہ قول بنو اسد كى ايك عورت ام يعقوب تك پہنچا تو وہ عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كو پاس آ كر كہنے لگى: آپ نے ايسى ايسى عورتوں پر لعنت كى ہے ؟

تو وہ فرمانے لگے: مجھے كيا ہے كہ ميں اس پر لعنت نہ كروں جس پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے، اور جو كتاب اللہ ميں بھى ہے ؟

تو وہ عورت كہنے لگى: ميں تو دو تختيوں كے درميان سارا قرآن مجيد پڑھا ہے، اور جو كچھ آپ كہہ رہے ہيں مجھے تو وہ نہيں ملا.

عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: اگر تو نے واقعتا پڑھا ہوتا تمہيں ضرور مل جاتا، كيا تو نے اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان نہيں پڑھا:

اور جو كچھ تمہيں رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ديں، تم اسے لے ليا كرو، اور جس سے منع كريں اس سے رك جايا كرو الحشر ( 7 ) ؟

تو وہ عورت كہنے لگى: كيوں نہيں ميں نے يہ فرمان پڑھا ہے، تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا: تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا ہے.

وہ كہنے لگى: ميرے خيال ميں تيرے گھر والياں بھى يہ كام كرتى ہيں.

تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے: جاؤ جا كر ديكھ لو، تو وہ عورت ان كےگھر گئى اور اسے اس طرح كى كوئى چيز نظر نہ آئى.

عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما فرمانے لگے: اگر ايسا معاملہ ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ رہ نہيں سكتى تھى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4604 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2125 ).

امام قرطبى رحمہ اللہ " الوشم " كا معنى كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اور وشم ہاتھوں ميں ہو سكتا ہے، اور وہ يہ كہ عورت اپنى ہتھيلى كى پشت اور كلائى ميں سوئى سے سوراخ كر كے اس ميں سرمہ وغيرہ بھر دے تو وہ سبز ہو جائے، تو اس نے وشم كيا، اور يہ واشمہ ہے.

اور المستوشمۃ: وہ عورت جس كے يہ عمل كيا جائے، الھروى كا يہى قول ہے.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 5 / 392 ).

اور ابن حجر رحمہ اللہ " النمص " كے معنى ميں كہتے ہيں:

" المتنمصات: متنمصۃ كى جمع ہے.

اور ابن الجوزى رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ: منتمصۃ نون سے قبل ميم يہ الٹ اور مقلوب ہے، اور المتنمصۃ وہ عورت ہے جو نمص يعنى ابرو كے بال اكھيڑنا طلب كرے.

اور النامصۃ: وہ عورت ہے جو بال اكھيڑے.

اور النماص: موچنے وغيرہ سے چہرے كے بال اكھيڑنے كو كہا جاتا ہے، اور اسى ليے المنقاش يعنى موچنے كو منماص بھى كہا جاتا ہے.

اور ايك قول يہ ہے كہ: النماص ابرو كو باريك كرنے يا برابر كرنے كے ليے ابرو كے بال زائل كرنے كو النماص كہتے ہيں.

سنن ابو داود ميں ابو داود رحمہ اللہ كہتے ہيں: النامصۃ: وہ عورت ہے جو ابرو كے بال نوچے حتى كہ وہ باريك ہو جائيں.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 377 ).

اور المتفلجات كے معنى ميں كہتے ہيں:

المتفلجات: متفلجۃ كى جمع ہے، اور يہ اس عورت كو كہا جاتا ہے جو دانتوں كے مابين فاصلہ كروائے يا كرے.

الفلج: فاء اور لام اور جيم كے ساتھ: اس كا معنى سامنے والے دو دانتوں كے درميان فاصلہ كرنا ہے.

اور التفلج: يہ دو ملے ہوئے دانتوں كے درميان ريتى وغيرہ سے رگڑ كر فاصلہ كيا جائے، اور يہ عام طور پر سامنے والے دو يا چار دانتوں كے ميں ہوتا ہے، اور عورت كے دانتوں ميں يہ خوبصورت اوراچھا محسوس كيا جاتا ہے، ہو سكتا ہے يہ اس عورت نے خود كيا ہو جس كے دانت آپس ميں ملے ہوئے تھے تا كہ وہ متفلجۃ يعنى دانتوں ميں فاصلہ والى بن جائے، اور بعض اوقات بڑى عمر كى عورت بھى ايسا كرتى ہے تا كہ كم عمر كى نظر آئے؛ كيونكہ غالبا چھوٹى عمر كى عورت كے دانتوں ميں فاصلہ ہوتا ہے، اور بڑى ہو كر آپس ميں مل جاتے ہيں "

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 372 ).

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور يہ سب امور كے فاعل پر احاديث ميں لعنت كى گئى ہے، اور يہ كبائر ميں شامل ہوتے ہيں، اور جس معنى كى بنا پر اس سے منع كيا گيا ہے اس ميں اختلاف ہے:

ايك قول يہ ہے كہ: يہ تدليس اور چھپاؤ كى بنا پر ہے.

اور ايك قول يہ ہے كہ: اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى كى وجہ سے ہے، جيسا كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے، اور صحيح بھى يہى ہے، جو كہ پہلےمعنى كو بھى متضمن ہے.

پھر ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ اس سے منع كيا گيا ہے جو باقى رہے؛ كيونكہ يہ اللہ تعالى كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ميں سے ہے، ليكن اگر باقى نہ رہے بلكہ ختم ہو جائے مثلا سرمہ يا عورتيں جس سے بناؤ سنگھار كرتى ہيں، تو علماء نے اس كى اجازت دى ہے.

ديكھيں: تفسير قرطبى ( 5 / 393 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 13744 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب