سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

عورتوں كا اپنے بال كاٹنا اور چہرے كے بال اتارنا

سوال

ميں مسلمان عورتوں كے متعلق ايك بحث ( مقالہ ) لكھ رہى ہوں، اور مسلمان عورت كے بالوں كے متعلق حكم معلوم كرنا چاہتى ہوں، آيا مسلمان عورت كے ليے اپنے بال كاٹ كر كندھوں كے برابر كرنے جائز ہيں يا نہيں ؟
اور چہرے پر اگے ہوئے بالوں كا حكم كيا ہے، كيا ان كو اتارنا حرام ہے يا نہيں ؟
آپ سے گزارش ہے كہ آپ ميرے ليے قوت ايمان كى دعا فرمائيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے ايمان كو اور زيادہ كرے، اور آپ كے سينہ كو كھول دے.

آپ كا سوال دو مسئلوں پر مشتمل ہے:

پہلا مسئلہ:

سر كے بال كاٹنے كا حكم:

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

عورت كے بال كاٹنے كے متعلق ہم كچھ نہيں جانتے، بال منڈانا منع ہے، آپ كو كوئى حق نہيں كہ آپ سر كے بال منڈائيں، ليكن ہمارے علم كے مطابق آپ بالوں كى لمبائى يا اس كى كثرت سے كاٹنے ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن يہ اچھے اور احسن طريقہ سے ہونا چاہيے جو آپ اور آپ كے خاوند كو پسند ہو، وہ اس طرح كہ آپ خاوند كے ساتھ متفق ہوں ليكن بال كٹوانے ميں كافر عورتوں كے ساتھ مشابہت نہيں ہونى چاہيے، اور اس ليے بھى كہ بال لمبے ہونے ميں انہيں دھونے اور كنگھى كرنے ميں مشقت ہے.

چنانچہ اگر بال زيادہ ہوں اور عورت اس كى لمبائى يا كثرت ميں سے كچھ كاٹ دے تو كوئى نقصان نہيں، يا اس ليے بھى كہ بال كاٹنےميں خوبصورتى ہے جو وہ خود اور اس كا خاوند چاہتا ہے اور اسے پسند كرتا ہے تو ہمارے نزديك اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن بال بالكل كاٹ دينا اور منڈا دينا جائز نہيں، ليكن اگر كوئى عذر ہو، يا بيمارى ہو تو ايسا كيا جا سكتا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے. اھـ

ديكھيں كتاب: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 515 ).

صحيح مسلم ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات اپنے بال كاٹا كرتى تھيں حتى كہ وہ كانوں كے برابر ہوتے تھے "

صحيح مسلم كتاب الحيض ( 320 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں عورتوں كے ليے بال چھوٹے كرنے كى دليل پائى جاتى ہے " اھـ

ليكن عورت كو كافر عورتوں اور فاسق و فاجر عورتوں كى مشابہت ميں بال كاٹنے سے اجتناب كرنا چاہيے.

شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:

" عورت كےليے پيچھے سے بال كاٹنے اور دونوں جانبوں سے بال لمبے چھوڑ دينا جائز نہيں، كيونكہ اس ميں اپنے جمال كے ساتھ بدصورتى ہے كيونكہ بال اس كے جمال ميں شامل ہوتے ہيں، اور پھر اس ميں كافر عورتوں كے ساتھ مشابہت بھى ہوتى ہے.

اور اسى طرح مختلف شكلوں ميں كاٹنا، اور كافر يا حيوان كے ناموں سے بال كٹ بنوانا مثلا ڈيانا كٹ، يہ كافر عورت كا نام ہے، اور شير كٹ يا چوہا كٹ؛ كيونكہ كفاراور جانوروں كے ساتھ مشابہت حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ عورت كے بالوں كے ساتھ مذاق ہے جو كہ عورت كا جمال ہے.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 516 - 517 ).

دوسرا مسئلہ:

چہرے كے بال اتارنا:

شيخ محمد بن صالح ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر تو بال غير عادى ہوں يعنى وہ ايسى جگہ ہوں جہاں عادتا بال نہيں ہوتے، مثلا عورت كى مونچھيں آ جائيں، يا پھر اس كے رخسار پر بال اگ آئيں، تو انہيں اتارنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ يہ عادت كے خلاف ہيں، اور ان ميں عورت كى بدصورتى ہے.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 536 - 537 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

عورت كے ليے چہرے كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

مونچھوں اور رانوں، اور پنڈليوں اور بازؤوں كے بال اتارنے ميں عورت پر كوئى حرج نہيں، اور نہ اس نہى ميں داخل نہيں ہوتے جو بال اكھيڑنے كے متعلق آئى ہے.

الشيخ عبد العزيز بن باز

الشيخ عبد الرزاق عفيقى

الشيخ عبد اللہ بن غديان

الشيخ عبد اللہ بن قعود

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 - 195 ).

اور مستقل فتوى كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا:

عورت كے ليے اپنے جسم كے بال اتارنے كا حكم كيا ہے، اگر جائز ہے تو پھر يہ بال كون اتار سكتا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" سر اور ابرو كے بال كے علاوہ باقى بال اتارنے جائز ہيں، ابرو اور سر كے بال اتارنے جائز نہيں، اور نہ ہى وہ ابرو كا كوئى بال كاٹ سكتى ہے، اور نہ ہى مونڈ سكتى ہے، اور باقى جسم كے بال يا تو وہ خود اتارے، يا پھر اس كا خاوند، يا كوئى اس كا محرم وہاں سے جس حصہ كو وہ ديكھ سكتا ہے، يا كوئى عورت اس حصہ سے جہاں اس كو ديكھنا جائز ہے "

الشيخ عبد العزيز بن باز

الشيخ عبد الرزاق عفيفى

الشيخ عبد اللہ بن غديان

الشيخ عبد اللہ بن قعود

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 194 ).

اور زيرناف بال اور رانوں كے بالوں كو نہ تو كوئى دوسرى عورت ديكھ سكتى ہے، اور نہ ہى كوئى محرم ہى ديكھ سكتا ہے.

عورت كے ليے ابرو كے سارے يا كچھ بال اتارنے حرام ہيں، يہ كسى بھى طريقہ اور وسيلہ يعنى نہ تو كاٹ كر اور نہ ہى مونڈ كر اور نہ كوئى كوئى پاؤڈر اور كريم استعمال كر كے اتارے جا سكتے ہيں، كيونكہ يہ اس نمص ميں شامل ہوتا ہے جس سے منع كيا گيا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے والى پر لعنت كى ہے.

اور النامصہ وہ عورت ہے جو زينت كے ليے اپنے ابرو كے سارے يا كچھ بال اكھيڑتى اور اتارتى ہے، اور المتنمصہ وہ عورت ہے جس كے بال اتارے جائيں، اور يہ اللہ كى پيدا كردہ صورت ميں تبديلى ہے، جس كا شيطان نے اللہ تعالى كے ساتھ عہد كيا تھا كہ وہ ابن آدم كو اس كا حكم دےگا.. "

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 2162 ) اور ( 1172 ) اور ( 1192 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اور مزيد معلومات كے ليے آپ كتاب: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 3 / 877 - 879 ) كا بھى مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد