جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

بنك كو عمارت كرايہ پر دينے كا حكم اور كيا كرايہ كى رقم حلال ہے؟

تاریخ اشاعت : 05-06-2006

مشاہدات : 7162

سوال

ہم نے سودى لين دين كرنے والے ايك بنك كو عمارت كرايہ پر دى ہے، تو كيا حاصل كردہ كرايہ حلال ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سودى لين دين كرنا حرام اور كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:

اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم پكے سچے مومن ہو، اور اگر تم ايسا نہيں كرو گے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كرلو تو تمہارے ليے تمہارا اصل مال ہے، نہ تو تم خود ظلم كرو اور نہ ہى تم پر ظلم و زيادتى كى جائے گىالبقرۃ ( 278 - 279 )

دوم:

جب سودى لين كرنا حرام ہو چكا تو پھر اس پر كسى بھى قسم كا تعاون كرنا بھى حرام ٹھرا، اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المائدۃ ( 2 ).

اور اس بنا پر تمہارے ليے كوئى جگہ سودى لين دين كرنے والے بنك كو كرايہ پر دينى جائز نہيں ہے اس ليے كہ ايسا كرنے ميں اس كبيرہ گناہ سود ميں بنك كے ساتھ معاونت ہوتى ہے.

" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے، سود كھلانےوالے، اور اسے لكھنے والے، اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت كى اور فرمايا: يہ سب برابر ہيں"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1598 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث ميں باطل پر اعانت كرنے كى حرمت پائى جاتى ہے. اھـ

اور سندھى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو سب پر لعنت صرف اس ليے كى كہ وہ گناہ ميں شريك ہيں. اھـ

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ميں ايك عمارت كا مالك ہوں، اور ايك بنك نے اسے كرايہ پر دينے كى درخواست كى ہے، اور يہ بنك سودى لين دين كرنے والے بنكوں ميں سے ہے، تو كيا ميرے ليے اس بنك اور اس طرح دوسرے سودى لين دين كرنے والوں كو يہ عمارت كرايہ پر دينا جائز ہے؟

تو كميٹى كے علماء كرام رحمہم اللہ كا جواب تھا:

ايسا كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ مذكورہ بنك اسے سودى لين دين كرنے كا اڈا بنائے گا، اور اسے اس غرض سے عمارت كرايہ پر دينى حرام كام ميں اس كا تعاون كرنا ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا تو فرمان يہ ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المائدۃ ( 2 ).

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 423 - 424 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

معاصى و گناہ پر تعاون كرنے كى حرمت پر دلالت كرنے والى آيات اور احاديث بہت زيادہ ہيں، اور اسى طرح مذكورہ دلائل كى بنا پر سودى بنكوں كو جائداد اور عمارتيں كرايہ پر دينا جائز نہيں ہيں.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 395 ).

اور آپ جو اجرت اور كرايہ بنك سے لے رہے ہيں وہ حرام ہے، اسے نيكى و بھلائى كے كاموں ميں صرف كر كے اس حرام مال سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، اور اس ميں جتنى بھى جلدى ہو سكے اس سے چھٹكارا حاصل كريں.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو جسم بھى حرام پر پلا ہو اس كے ليے آگ زيادہ بہتر ہے"

اسے طبرانى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع ( 4519 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور جو كرايہ آپ اس كى حرمت كا علم ہونے سے قبل ليتے رہے ہيں وہ تمہارے ليے حلال ہے، كيونكہ جب اللہ تعالى نے سود كى حرمت نازل كى تو يہ فرمايا .

اور جو شخص اللہ تعالى كى آئى ہوئى نصحيت سن كر رك گيا تو اس كے ليے وہى ہے جو گزر چكا، اور اس كا معاملہ اللہ تعالى كے سپرد البقرۃ ( 275 ).

مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 2492 ) اور ( 8196 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب