جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

نماز ترك كرنے كا كفارہ

سوال

نماز كا كفارہ كيا ہے ؟
ايك يا اوقات نماز ضائع كرنے پر بطور كفارہ كيا قيمت ادا كرنا ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس نے ايك يا زيادہ فرضى نمازيں بغير كسى عذر كے ترك كرديں اسے اللہ تعالى كے ہاں سچى توبہ كرنى چاہيے، اور اس كے ذمہ كوئى قضاء اور كفارہ نہيں، كيونكہ فرضى نماز جان بوجھ كر عمدا ترك كرنا كفر ہے.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے اور ان كے مابين عہد نماز ہے، جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كيا "

مسند احمد حديث نمبر ( 22428 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 462 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" آدمى اور شرك اور كفر كے مابين نماز كا ترك كرنا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 242 ).

اور اس ميں سچى اور پكى توبہ كے علاوہ كوئى كفارہ نہيں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 50 ).

اسى طرح نماز ايك مؤقت شدہ عبادت ہے جو محدود وقت كے ساتھ معني ہے، اور جس كسى نے بغير كسى عذر بھى مؤقت شدہ عبادت ترك كى حتى كہ اس كا متعين كردہ وقت ہى جاتا رہا مثلا نماز اور روزہ، اور پھر وہ اس عمل سے توبہ كرے تو اس پر كوئى قضاء نہيں ہے، اس ليے كہ شارع كى جانب سے وہ عبادت مؤقت تھى اور اس كا ابتدائى اور آخرى وقت مقرر كردہ ہے.

ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 1 / 322 ).

ليكن اگر كسى شخص نے شرعى عذر كى بنا پر نماز ترك كى مثلا نيند يا بھول كر تو اس كا كفارہ يہ ہے كہ جب اسے ياد آئے اور سويا ہوا بيدار ہو تو اسى وقت نماز ادا كر لے، اس كے علاوہ كوئى اور كفارہ نہيں.

جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى نماز بھول جائے يا اس سے سويا رہے تو جب اسے ياد آئے وہ نماز ادا كر لے، اس كا كفارہ يہى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 572 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1564 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب