جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كيا رمضان كي قضاء ميں جماع سے كفارہ واجب ہوگا

سوال

ميں ايك دن قضاء كا روزہ ركھے ہوئےتھي تو خاوند نے ميرے ساتھ جماع كرليا ، كيا مجھ پر كچھ لازم آتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان كي قضاء كاروزہ واجب ہے جسے انسان بغير ضرورت كےتوڑ نہيں سكتا، اورجب كوئي انسان قضاء شروع كردے تواسے وہ روزہ لازما مكمل كرنا ہوگا، اور بغير كسي شرعي عذر كےروزہ توڑنا جائز نہيں .

ام ھاني رضي اللہ تعالي عنہا سےثابت ہے كہ وہ كہتي ہيں : ( اے اللہ تعالي كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم ميں روزہ سے تھي تو روزہ كھول ديا ہے ؟ تو رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا: كيا تم كسي كي قضاء كررہي تھي ؟ وہ كہنےلگيں نہيں ، تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے: اگر نفلي روزہ تھا توپھر تجھےكوئي نقصان نہيں دےگا . سنن ابوداود ( 2456 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نےاسے صحيح قرار ديا ہے.

تويہ اس بات كي دليل ہے كہ اگر اس نے واجب روزہ توڑا تو اسے نقصان دے گا اور يہاں نقصان سے مراد گناہ ہے .

ليكن جوكچھ آپ دونوں كےمابين ہوا وہ جماع ہے اور جماع كا كفار صرف رمضان كا روزہ رمضان كے مہينہ ميں ہي باطل كرنے ميں لازم آتا ہے، تو اس بنا پر آپ كےذمہ كچھ لازم نہيں آتا صرف آپ رمضان كےاس دن كي قضاء ميں ايك روزہ ركھيں اور اس كےساتھ ساتھ اللہ تعالي سے توبہ واستغفار بھي كريں اور آئندہ اس طرح كا كام نہ كرنے كا عزم بھي كريں.

ابن رشد رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

جمہورعلماء كرام اس پر متفق ہيں كہ: رمضان كي قضاء ميں ركھے گئے روزہ كوعمدا كھولنے سے كفارہ لازم نہيں آتا اس ليے كہ اس كي ادائيگي حرمت زمان نہيں، ميري مراد رمضان ہے ( يعني يہ رمضان نہيں ) بدايۃ المجتھد ( 2 / 80 )

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے اس عورت كےمتعلق سوال كيا گيا جس نے رمضان كي قضاء ميں ركھےہوئے روزہ مہمانوں كي خاطر مدارت كرنے كےليے مجاملتا كھول ديا ؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:

اگرتو يہ قضاء واجبي روزہ كي قضاء ہے مثلا رمضان كي تو كسي كےليے بھي ضرورت كےبغير روزہ كھولنا جائز نہيں، اور صرف مہمانوں كےليے روزہ كھول دينا حرام ہے اور جائز نہيں كيونكہ شرعي قاعدہ ہے:

( جس نےبھي كوئي واجب عمل شروع كيا اسے اس عمل كومكمل كرنا ہوگا ليكن اگرشرع عذر ہو تو ترك كرسكتا ہے )

ليكن اگر قضاء نفل كي ہے تو اس كا مكمل كرنا لازم نہيں كيونكہ يہ واجب نہيں .

تواس بنا پر جب انسان نفلي روزہ سےہو اور كوئي ايسا معاملہ پيش آجائے توروزہ كھولنے كا متقاضي ہو تو وہ روزہ كھول سكتا ہے، نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے يہ ثابت ہے كہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم ام المومنين عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كےپاس تشريف لائے اور كہنےلگے:

كيا تمہارےپاس كچھ ہے؟ تووہ كہنےلگيں: ہميں حيسہ ھديہ ديا گيا ہے تو نبي صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا: مجھےدكھاؤ ميں نے صبح روزہ ركھا تھا، تو نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاس سےكھايا . يہ نفلي روزہ ميں تھا نہ كہ فرض ميں . اھ

ديكھيں: مجموع الفتاوي ( 20 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب