"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
افسوس ہے كہ مسلمانوں ميں كچھ ايسے افراد بھى پائے جاتے ہيں جو اسلامى آداب و اخلاق كا خيال نہيں كرتے، اور اس پر بھى افسوس ہے كہ يہ لوگ كفريہ ممالك ميں بستے ہيں ہو ان كى يہ زيادتى بڑھ كر دين اسلام پر زيادتى كے مترادف ہو جاتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى ان فوت شدہ مسلمان تاجروں پر رحم فرمائے جنہوں نے اپنے اخلاق عاليہ سے كئى امتيں دين اسلام ميں داخل كيں، يہ لوگ ايسے نمونے اور آئيڈيل بن گئے جن پر تاريخ اسلام ميں فخر كر جاتا رہےگا.
آج كل كفريہ ممالك ميں مسلمانوں كى تعداد كتنى زيادہ ہے، اگر ان ميں سے ہر شخص دين اسلام كى تعليمات اور آداب و اخلاق پر صحيح عمل كرتا، اور يہ مسلمان شخص كے ليے تقوى و پرہيزگارى ميں نمونہ بن كر دكھاتا تو آپ زمين ميں بہت بڑى اور عظيم تبديلى ديكھتے.
كفريہ ممالك ميں بسنے والے مسلمانوں ميں سے اگر ہر ايك مسلمان شخص صرف ہر سال ميں ايك شخص كو ہى دين اسلام ميں داخل كرتا تو آپ زمين ميں اس كا وہ اثر ديكھتے جو اديان كى تاريخ ميں اب تك سننے ميں نہيں آيا.
ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ ايسا كہاں ہو سكتا ہے كيونكہ يہ لوگ تو نظرياتى طور پر بھى دين اسلام كى تعليمات سے جاہل ہيں، اور اگر ان ميں سے كسى شخص كو دين اسلام كى تعليمات كا علم بھى ہے تو وہ ان تعليمات پر عمل نہيں كرتا، مگر جس پر اللہ سبحانہ و تعالى كا رحم و فضل ہے وہ عمل پيرا ہے.
چاہيے تو يہ تھا كہ يہ مسلمان خاوند دين اسلام كے عالى اخلاق كا مالك ہوتا، اور اس كے نتيجہ ميں اس كى بيوى اور بيوى كا سارا خاندان دين اسلام ميں داخل ہو جاتا، ليكن اس كے بدلے ميں يہ خاوند تو ايسے اخلاق كا مالك ہے كہ اس كے اخلاق اور سلوك كى بنا پر بہت سارے دين اسلام سے ہى نفرت كرنے لگے ہيں.
اس كى وجہ يہ ہے كہ كچھ لوگ تو طلاق دينے كى نيت سے شادى كرتے ہيں كہ جب اس كا جى بھر جائے اور تعليم ختم ہو جائے تو وہ بيوى كو پھينك ديتا ہے.
اور كچھ ايسے بھى ہيں جو شہريت كے حصول اور تعليم كا ويزہ حاصل كرنے كے ليے شادى كرتے ہيں، جب ان كا يہ كام ہو جاتا ہے تو بيوى كو چھوڑ ديتے ہيں.
اور ايسے افراد كا اپنى بيويوں كے ساتھ كيا معاملہ ہوتا ہے اس كے بارہ ميں آپ جو بات كريں اس ميں كوئى حرج نہيں كاش يہ خاوند و نيك و صالح ہوتا، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اس پر جو ذمہ دارى عائد كى ہے وہ فرائض ادا كرتا، اور دين اسلام كے اخلاق عاليہ كو اختيار كرتا تو اس كے ليے دنيا و آخرت ميں بہتر تھا.
دوم:
بيوى كے اپنے خاوند پر جو حقوق ہيں ان ميں سب سے عظيم حق بيوى كا نان و نفقہ ہے اسى كى بنا پر مرد كو حاكم بنايا گيا ہے اور وہ نان و نفقہ كى بنا پر ہے اس كا مستحق ٹھرا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں النساء ( 34 ).
امام طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" الرجال قوامون على النساء " يعنى: مرد اپنى بيويوں كو ادب سكھانے اور اللہ نے عورتوں پر اللہ اور خاوندوں كے ليےجو واجب كيا ہے اس كى ادائيگى ميں ان كا مؤاخذہ كرنے كے اہل ہيں.
" بما فضل اللہ بعضہم على بعض "
يعنى: مردوں كو اللہ تعالى نے جو ان كى بيويوں پر فضيلت دى ہے كہ وہ بيويوں كو ان كے مہر ديں، اور اپنے اموال سے ان كا نان و نفقہ ادا كريں، اور ان كى ضروريات پورى كريں، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس وجہ سے مردوں كو عورتوں پر فضيلت دى ہے.
اور اسى ليے وہ ان كے نگران اور حاكم ٹھرے ہيں، كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان عورتوں كے جو امور مردوں كے ذمہ لگائے ہيں وہ اس كو نافذ كرتے ہيں.
ديكھيں: تفسير طبرى ( 8 / 290 ).
معاويہ قشيرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى ايك كى بيوى كا اس پر كي حق ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم خود كھاؤ تو بيوى كو بھى كھلاؤ، اور جب تم پہنو تو بيوى كو بھى پہناؤ، اور بيوى كے چہرے پر مت مارو اور نہ ہى اسى قبيح اور بدصورت كہو، اور گھر كے علاوہ اس سے كہيں بھى بائيكاٹ مت كرو "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2142 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1850 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن رشد قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء اس پر متفق ہيں كہ بيوى كے خاوند پر حقوق ميں ميں بيوى كا نان و نفقہ اور لباس شامل ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جس كا بچہ ہے اس پر ان ( بچے كى ماں ) كا خرچ اور لباس ہے اچھے طريقہ كے ساتھ .
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اور تم پر ان عورتوں كا نان و نفقہ اور لباس اچھے طريقہ سے ہے "
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہند رضى اللہ تعالى عنہا سے فرمايا تھا:
" تم اچھے طريقہ سے اتنا كچھ لے ليا كرو جو تمہارے اور تمہارے بچے كے ليے كافى ہو "
نان و نفقہ واجب ہونے پر سب متفق ہيں.
ديكھيں: بدايۃ المجتہد و نھايۃ المقتصد ( 2 / 44 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" رجعى يا بائن طلاق والى حاملہ عورت كا وضع حمل تك اس كے خاوند كے ذمہ نان و نفقہ واجب ہے، كيونكہ اس پر فقھاء كرام كا اتفاق ہے؛ اس ليے كہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور اگر وہ ( عورتيں ) حمل والياں ہوں تو وضع حمل تك ان پر خرچ كرو . انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 16 / 274 ).
حاملہ عورت كا نان و نفقہ اس كے خاوند كے ذمہ يقينى طور پر واجب ہے، چاہے بيوى كو طلاق بھى دے دى ہو! تو پھر اگر بيوى كو طلاق نہ دى ہو تو يہ نفقہ تو اور بھى يقينى واجب ہوگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ حمل والياں ہوں تو تم ان پر خرچ كرو حتى كہ وہ اپنا حمل وضع كر ليں . الطلاق ( 6 )
حتى كہ اگر خاوند بيوى كے حقوق سے برى بھى ہو چكا ہو اور پھر بيوى كا حمل واضح ہو جائے تو پھر اس كا نان و نفقہ اس برات ميں شامل نہيں ہوگا بلكہ اسے ادا كرنا ہوگا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
ايك شخص نے اپنى بيوى كو تين طلاقيں دے ديں اور حمل كا علم ہونے سے قبل اس كے سارے حقوق بھى ادا كر ديے ليكن جب بيوى كا حمل واضح ہوا تو بيوى نے حمل كا نان و نفقہ طلب كيا تو كيا بيوى كو ايسا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے يا نہيں ؟
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر معاملہ ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں بيان كيا گيا ہے تو حمل حقوق سے برى الذمہ ہونے ميں شامل نہيں ہوگا، بلكہ بيوى كو حمل كى حالت ميں نان و نفقہ طلب كرنے كا حق حاصل ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 361 ).
اس بنا پر بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ خاوند سے اپنا اور حمل كا خرچ حاصل كرے، اور خاوند كے اخراجات نہ دينے كى صورت ميں جو كچھ وہ اپنے اوپر خرچ كر رہى ہے وہ خاوند كے ذمہ قرض ہوگا، اور جس كے ہاتھ ميں اس شخص كا معاملہ ہے اسے چاہيے كہ بيوى نے جو كچھ خرچ كيا اور جو خرچ ہو گا خاوند كو مجبور كيا جائے كہ وہ بيوى كے سارے اخراجات كى ادائيگى كرے.
اور اس خاوند كا مال جس شخص كے ہاتھ آئے اس كے ليے جائز ہے كہ وہ خاوند كى اجازت اور اختيار كے بغير بھى بيوى كے اخراجات لے لے؛ كيونكہ اس كے مال ميں يہ بيوى كا حق ہے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيوى كو اجازت دى ہے كہ وہ اپنے خاوند كے مال سے خاوند كے علم كے بغير اپنے اور بچوں كے اخراجات كے ليے رقم لے سكتى ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ھند بنت عتبہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ابو سفيان ايك بخيل شخص ہے، اور مجھے اور ميرى اولاد كے ليے كافى خرچ نہيں ديتا، ميں اس كى لاعلمى ميں مال لے كر ہى اپنا خرچ پورا كرتى ہوں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اچھے طريقہ سے اتنا مال لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارے بچے كے ليے كافى ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5049 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1714 ).
سوم:
اس خاوند كے بارہ ميں يہ علم نہيں ہوا كہ اس نے اپنى بيوى كو كيوں چھوڑا ہے، اور اس كا سبب كيا ہے، مشروع اور جائز تو يہ ہے كہ اگر بيوى كسى معصيت كى مرتكب ہو يا پھر كوئى واجب ترك كرے، يا پھر خاوند كى نافرمان ہو تو اسے وعظ و نصيحت كى جائيگى اور اگر يہ فائدہ مند نہ ہو تو پھر اسے چھوڑا جائيگا يعنى اس سے بستر ميں عليحدگى اختيار كى جائيگى تا كہ وہ معصيت و نافرمانى سے باز آ جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا خوف ہو تو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو، اور انہيں مار كى سزا دو، پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو ان پر كوئى راستہ تلاش نہ كرو، يقينا اللہ تعالى بڑى بلندى اور بڑائى والا ہے النساء ( 34 ).
اور كچھ علماء كرام كى رائے ہے كہ بيوى كو گھر سے نہيں نكالا جائيگا بلكہ گھر ميں ہى ركھ كر اس سے بستر ميں عليحدگى اختيار كى جائيگى، اس كى دليل معاويہ قشيرى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث اوپر بيان ہو چكى ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود گھر سے نكل كر بيويوں سے عليحدگى اختيار كى تھى، اور يہ مختلف ہو سكتا ہے جيسا خاوند ديكھے كہ بيوى پر اس كا خود گھر سے جانا اثرانداز ہو سكتا ہے يا كہ گھر ميں ہى رہتے ہوئے بستر ميں عليحدگى اختيار كرنا.
اس مسئلہ ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اختلاف نقل كرنے كے بعد كہا ہے:
" حق يہ ہے كہ يہ چيز حالات كے اختلاف سے مختلف ہو گى، بعض اوقات گھروں ميں ہى بيوى سے عليحدہ رہنا گھر سے باہر جانے كى بجائے زيادہ اثرا انداز ہو سكتا ہے، اور بعض اوقات اس كے برعكس ہو سكتا ہے.
بلكہ غالب طور پر تو گھر سے باہر جانا اور بيوى كو گھر ميں ہى چھوڑ دينا دلوں پر زيادہ اثرانداز ہوتا ہے، اور خاص كر عورتوں كے دل تو بہت كمزور ہوتے ہيں اس سے خاوند انہيں چھوڑ كر گھر سے جائے تو بہت زيادہ اثر پڑتا ہے.
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 301 ).
ان سب حالات ميں جبكہ بيوى اپنے آپ كو خاوند كے سپرد كيے ہوئے ہے تو اس كا نان و نفقہ خاوند كے ذمہ ہے يہ منقطع نہيں ہوگا، ليكن اگر بيوى نافرمانى كرتے ہوئے گھر سے نكل جائے تو پھر اس حالت ميں وہ نان و نفقہ كى مستحق نہيں ہوگى.
ليكن اگر وہ حاملہ ہے تو پھر بچے كے اخراجات اس كے باپ كے ذمہ ہونگے، چاہے بيوى نافرمان ہى ہو؛ كيونكہ حاملہ عورت كا نان و نفقہ اس كے حمل كے ليے نہ كہ عورت كے ليے، مالكى حضرات كا قول اور شافعيہ كا بھى ايك قول يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 16 / 274 ).
ديكھيں ہم نے سب لوگوں كے ليے بيان كر ديا ہے كہ شريعت اسلاميہ نے بيوى كے حقوق كى كفالت كى ہے، اور اس كے خاوند كو حكم ديا ہے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرے، اور اگر بيوى كسى واجب ميں كوتاہى كرے، يا پھر معصيت و نافرمانى كرے تو پھر خاوند اسے چھوڑنے اور اس سے بائيكاٹ كرنے سے قبل وعظ و نصيحت كريگا.
اور اگر وہ اس سے بائيكاٹ بھى كرتا ہے تو بيوى كا نان و نفقہ ادا كريگا اس كے ليے نان و نفقہ ختم كرنا حلال نہيں، ليكن اگر بيوى نافرمان ہو اور وہ خاوند كے گھر سے نكل جائے تو پھر نان و نفقہ نہيں ہوگا.
اور اگر بيوى حاملہ ہو اور وہ بيت زوجيت ميں ہى ہو تو اس كا نان و نفقہ يقينى ہوگا، اور اگر وہ نافرمان ہونے كى وجہ سے خاوند كے گھر ميں نہيں تو بھى حمل كا نان و نفقہ منقطع نہيں ہوگا.
جو شخص استطاعت اور قدرت ركھتا ہے وہ اس عورت كے خاوند سے بات چيت كرے اور اسے نصيحت كرے كہ وہ اس سلسلہ ميں كوتاہى سے كام مت لے، اور خاوند سے مطالبہ كرے كہ يا تو بيوى كو اچھے طريقہ سے اپنے پاس ركھے، يا پھر اسے اچھے طريقہ سے چھوڑ دے، اس كے ليے بيوى كو معلق كر كے چھوڑنا جائز نہيں، كہ بيوى كو نہ تو شادى شدہ رہنے دے اور نہ ہى وہ مطلقہ ہو.
اس كے مال ميں بيوى كا نان و نفقہ واجب ہے، اور اگر اس سے جبرا مال لے كر بيوى كو نفقہ اور اخراجات كے مطابق ديا جائے تو جائز ہے، اور جب سے خاوند نے بيوى كو چھوڑ ركھا ہے اس وقت سے بيوى نے جو اخراجات كيے ہيں وہ سارے خاوند سے ليے جائيں، اور اس كے بعد اس كا نان و نفقہ مستقل طور پر لازم ہوگا.
كسى ايسے شخص كے ليے حلال نہيں جو امور كو حل كرنے اور سنبھالنے كى استطاعت ركھتا ہو وہ اس بيوى كو ويسے ہى چھوڑ دے اور اس كا خيال نہ كرے، اور خاص كر جب يہ بيوى كفار خاندان سے تعلق ركھتى ہے اس ليے يہ بات حتمى ثابت ہو جاتى ہے كہ اس كے ارد گرد رہنے والے مسلمانوں كا اس كا زيادہ خيال ركھنا ہوگا، تا كہ اس عورت كے دين كى حفاظت ہو، اور مظلوم كى مدد و نصرت ہو سكے.
معاشرے كے افراد كا كسى مظلوم شخص كى داد رسى كرنا، اور محتاج كى ضرورت پورى كرنا، اور لاچار و مضطر كى شكايت سننا، اس كا پورا بدلہ نہيں ہے، اگر وہ اس كا اہتمام كريں تو بہت اچھا ہے، ليكن اگر وہ ايسا نہيں كرتے تو پھر ملامت كے مستحق نہيں ہونگے؛ بلكہ يہ چيز تو انسان كے اسلام كى حقيقت ہے، اور دين اسلام ميں ايك سليم معاشرے كا رنگ ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" آپ مومنوں ميں آپس ميں رحمدلى اور محبت و مودت اور عاطفت ميں ايك جسم كى طرح ديكھيں گے، جب جسم كا كوئى ايك حصہ تكليف محسوس كرے تو سارا جسم ہى تكليف اور بخار كا شكار ہو جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6011 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2586 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابن ابى جمرہ رحمہ اللہ كہتے ہي: ظاہر يہى ہوتا ہے كہ آپس ميں محبت و مودت اور نرمى و عاطفت اگرچہ يہ سب آپس ميں قريب المعنى ہيں، ليكن ان ميں ايك لطيف باريك سا فرق ہے، تراحم سے مراد يہ ہے كہ اخوت ايمانى كى بنا پر وہ آپس ميں ايك دوسرے كے ساتھ رحمدلى كرتے ہيں، كسى اور سبب كى بنا پر نہيں.
رہى آپس ميں محبت و مودت تو اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے كام كيے جائيں جو مبحت و مودت پيدا كريں يعنى تحفہ تحائف ديے جائيں، اور ايك دوسرے سے ملاقات كريں، اور ہديہ وغيرہ ديں.
اور رہى عاطفت و نرمى تو اس سے مراد يہ ہے كہ ايك دوسرے كى معاونت كى جائے، جس طرح اس پر كپڑا معاونت كرتا ہے تا كہ اس ميں قوت پيدا ہو " اھـ مختصرا.
قولہ: " كمثل الجسد " يعنى ايك جسم كى مانند جس طرح جسم كے سارے اعضاء مل كر ايك جسم بنتا ہے، اور اس ميں تشبيہ اس طرح ہے كہ سارا جسم تھكاوٹ اور راحت ميں موافق ہوتا ہے.
ابن ابى جمرہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايمان كو جسم اور اہل ايمان كو جسم كے اعضاء كے ساتھ تشبيہ دى ہے، كيونكہ ايمان اصل ہے اور تكليفات اس كى فروعات ہيں، اس ليے جب كوئى شخص فروعات ميں خلل پيدا كرے تو اس سے اصل بھى متاثر ہوگا.
اسى طرح جسم اصل ہے جس طرح كہ ايك درخت ہوتا ہے اور جسم كے اعضاء درخت كى ٹہنيوں كى طرح ہيں، لہذا جب كوئى بھى عضو تكليف محسوس كرے تو درخت كى طرح سارے اعضاء تكليف محسوس كرتے ہيں، بالكل ايسے ہى جيسے كسى ايك ٹہنى كو ضرب لگائى جائے تو سارى ٹہنياں حركت كرنے لگتى ہيں " انتہى
ماخوذ از: فتح البارى.
يقينا فقير و مسكين اور ضرورتمند عيالدارى كرنا اور اس كى ضرورت پورى كرنا مسلمان كے مال ميں ايك اساسى حصہ شمار ہوتا ہے، اور جس معاشرے ميں يہ ضرورتمند اور فقير رہتا ہے اس پر فرض و واجب ہے كہ اس كى ضرورت پورى كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں كى مدح سرائى كرتے ہوئے ان كى صفات بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور ان كے اموال ميں سوال كرنے اور محروم اشخاص كے ليے ايك معلوم حق ہے .
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" وہ شخص مومن نہيں ہے جو خود تو پيٹ بھر كر كھائے اور اس كا پڑوسى بھوكا ہو "
اسے امام بخارى نے الادب المفرد ( 112 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
لہذا اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اس خاوند كى اصلاح فرمائے اور اسے اپنے گھر كى اصلاح كرنے كى توفيق دے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اس بہن كو جس آزمائش ميں ڈالا ہے وہ اس پر صبر كرے، اور اگر وہ صبر و تحمل سے كام ليتى ہے تو اسے اجروثواب كے حصول پر خوش ہو جانا چاہيے، كہ وہ اپنى مصيبت ميں صبر سے كام ليتے ہوئے اجروثواب كى نيت كرے گى تو اللہ تعالى اسے اجروثواب عطا فرمائيگا.
اس بہن كو اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كرنى چاہيے كہ وہ اسے اس مشكل اور تنگى سے نكالے، اور اس كے ليے وہ كچھ اختيار فرمائے جو اس كے دين و دنيا كے ليے بہتر ہو.
واللہ اعلم .