"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
دیگر بیماریوں سمیت کینسر اور جلنے سے متاثر ہونے والوں بچوں کی بحالی کیلئے کام کرنے والی تنظیم کو کوئی عورت اپنے بال عطیہ کر سکتی ہے، یہ تنظیم ان بالوں سے بچوں کیلئے وگ تیار کرتی ہے۔
الحمد للہ.
اول:
فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ انسان اپنے بال فروخت نہیں کر سکتا؛ کیونکہ یہ بال اس کا اپنا حصہ ہیں اور انسان اعلی مقام پر فائز ہے، اپنا کوئی عضو فروخت کرے تو یہ انسانی جز کی اہانت اور ذلت کا باعث ہوگا۔
چنانچہ " الموسوعة الفقهية " ( 26 / 102 ) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ انسانی بالوں کو فروخت کر کے یا ویسے ہی کسی استعمال میں لا کر فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ انسان کو اللہ تعالی نے بہت عزت والا بنایا ہے؛ اور فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے بنی آدم کو بہت عزت والا بنایا ہے۔[الإسراء : 70]
اس لیے انسانی اعضا میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے کہ اس کی اہانت کی جائے " انتہی
دوم:
بال کسی ایسے شخص کو عطیہ کرنا جو اس سے قدرتی بالوں کی وگ تیار کرے تو اس بارے میں یہ ہے کہ :
وگ کا استعمال اپنی صورت حال کے مطابق کبھی جائز ہوگا اور کبھی حرام ، چنانچہ اگر کسی عیب کو چھپانے کیلئے ہو تو پھر جائز ہے، اور اگر وگ لگا کر خوبصورتی اور زینت مقصود ہو تو اس وقت حرام ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وگ استعمال کرنے کی دو صورتیں ہیں:
1- وگ پہننے کا مقصد خوبصورتی ہو، مثال کے طور پر عورت کے اچھے بھلے بال ہونے کے با وجود وگ پہنی جائے تو یہ جائز نہیں ہوگا، کیونکہ اس صورت میں یہ بالوں میں بال ملانے میں شمار ہوگا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال ملانے اور ملوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
2- عورت کے سر پر بالکل بھی بال نہ ہوں، اور اسے عورتوں کے درمیان معیوب سمجھا جائے، اور اس عیب کو چھپانے کا وگ کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہ ہو ، تو ہمیں امید ہے کہ ایسی صورت حال میں وگ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس وقت وگ کا استعمال خوبصورتی کیلئے نہیں ہے بلکہ عیب چھپانے کیلئے، اگرچہ احتیاط اسی میں ہے کہ وگ مت پہنے بلکہ اپنے سر کو دوپٹے سے ڈھانپ کر رکھے، تا کہ عیب ظاہر نہ ہو، واللہ اعلم" انتہی
" فتاوى نور على الدرب "
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"وگ استعمال کرنے کی حرام صورت بالوں میں بال ملانے کا حکم رکھتی ہے، وگ میں اگرچہ بالوں میں بال شامل نہیں کیے جاتے ، بلکہ وگ کو سر پر رکھا جاتا ہے، اور اس طرح عورت کے بال حقیقی بالوں سے زیادہ لمبے نظر آتے ہیں، چنانچہ اس اعتبار سے اس کا حکم بھی بالوں کیساتھ بال ملانے والا ہی ہوگا کیونکہ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال ملانے والی اور ملوانے والی دونوں خواتین پر لعنت فرمائی ہے۔
لیکن اگر کسی عورت کے سر پر بال بالکل بھی نہ ہوں، یا گنجے پن سے متاثر ہو، تو اس عیب کو چھپانے کیلئے وگ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ عیب زائل کرنا جائز ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو کسی جنگ میں ناک کٹ جانے پر سونے کی ناک بنوانے کی اجازت دی تھی" انتہی
" مجموع فتاوى شیخ عثیمین " ( 11 / سوال نمبر: 68 )
مذکورہ بالا تفصیل کے بعد:
اگر بالوں کے عطیات جمع کرنے والے ادارے ان بالوں سے جلنے یا کینسر سمیت کسی بھی وجہ سے بال ختم ہو جانے والوں کیلئے وگ تیار کریں، اور یہ ادارے قابل اعتماد بھی ہوں ، تو انہیں بالوں کا عطیہ کیا جا سکتا ہے، اور عطیہ کرنے والا اللہ تعالی سے اجر کی امید رکھے۔
جبکہ نا قابل اعتبار اور خوب صورتی کیلئے وگ تیار کرنے والے اداروں کیلئے اپنے بال عطیہ نہ کرے۔
واللہ اعلم.