اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

خاوند كے گھر سے چلى گئى اور اس كے عاشق نے شادى كى پيشكش كى حالانكہ وہ ابھى پہلے خاوند كے نكاح ميں تھى

30-12-2010

سوال 101574

ميرى عمر چھبيس برس ہے اور سال بھر خاوند كا گھر چھوڑنے كے بعد اب تقريبا ايك ہفتہ قبل مجھے طلاق ہوئى ہے ميں اس وقت اپنے بچے كے ساتھ ميكے ميں ہوں بچے كى عمر تقريبا دو برس ہے.
يہ شادى محبت كى شادى تھى ابتدا ميں تو ميں اپنى ساس كے ساتھ رہائش پذير رہى اور ميرى ساس ہر چيز ميں دخل اندازى كرنے لگى.
اور خاوند نے مجھ سے ملازمت كا مطالبہ كيا تا كہ شادى كے ليے حاصل كردہ قرض كى ادائيگى ميں مدد ہو سكے، اور مجھے ملازمت مل گئى ميں نے ملازمت كر كے قرض كى ادائيگى ميں مدد بھى كى.
ميرى ايك ہى شرط تھى كہ ہم اپنے عليحدہ گھر ميں رہيں جہاں ساس كا دخل نہ ہو، اور خاوند نے مجھ سے اس كا وعدہ بھى كيا تھا، كيونكہ گھر ميں والدہ ہى ہر كام كو كنٹرول كرتى تھى، اور ميرا خاوند كوئى اعتراض نہيں كر سكتاتھا، اگر اعتراض كرتا تو والدہ اسے گھر سے نكال ديتى، ميرى ساس بھى ملازمت كرتى ہے.
ميں نے دو برس اپنے خاوند كا تجربہ كيا اور اس كے ساتھ رہى ہوں تو ميں نے اسے وہ شخص نہيں پايا جسے ميں نے ابتدا ميں جانا تھا، وہ تو صرف ايك نقاب اور ماسك تھا جو اس نے پہن ركھا تھا.
ميرا خاوند ميرى سارى تنخواہ لے ليتا اور مجھے يوميہ اخراجات كے علاوہ كچھ نہ ديتا، جب بھى اسے رقم كى ضرورت ہوتى يا پھر كام چھوڑ ديتا تو مجھ سے زيور فروخت كرنے كا مطالبہ كرتا، اور ميں نے ايسا ہى كيا اور اپنا زيور تك فروخت كر ديا، اور بعض اوقات اس نے بھى ايسا ہى كيا.
ميرا خاوند مجھ سے كہتا كہ جاؤ اپنے گھر والوں سے قرض لاؤ تو ميں اپنے ميكے سے رقم حاصل كرتى، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ مجھے كچھ نہ ديتا، ميں ہر چيز سے محروم تھى، اور وہ ہميشہ مجھے يہى كہتا تھا " تمہيں ہمارى حالت كا علم ہے اور تم اسے برداشت كرو " وہ اپنا بٹوہ گاڑى ميں چھپا كر ركھتا تھا اور كہتا كہ مجھے كوئى حق نہيں پہنچتا كہ اسے معلوم ہو اس كے پاس كتنى رقم ہے، يا كچھ بھى نہيں.
اس طرح ہمارے مابين مشكلات ميں اضافہ ہوتا رہا، اور ميں مطالبہ كرتى رہى كہ ہمارا عليحدہ گھر ہونا چاہيے كيونكہ ميں اس كى عادى نہ تھى كہ ايسے گھر ميں رہوں جہاں جو مرضى ہوتا رہے اور خارج والا خارج رہے.
كيونكہ اس كى ايك مطلقہ بہن تھى جو ملازمت كرتى اور اپنى ملازمت والى جگہ پر ہى ہوٹل ميں رات بسر كرتى تھى جو ہمارے علاقے سے باہر تھا، اور ہميں ملتى آتى تو اس دوران بھى ہر رات باہر رہتى اور آدھى رات كے بعد گھر واپس آتى مجھے يہ چيز اچھى نہ لگتى اور ميں اپنے محترم خاوند سے كہتى:
ہمارے پڑوسى اس گھر والوں كے متعلق كيا كہيں گے جہاں ہم رہتے ہيں ؟ يہ عيب ہے تو خاوند جواب ديتا: ميں ان سے بات كرونگا مجھے بھى يہ چيز اچھى نہيں لگتى، اور مجھے صبر كرنے كا كہتا، اور بالآخر اس نے يہ كہا:
يہ ہمارى عادت اور رسم و رواج ہے ( كيونكہ وہ عرب نہيں ہيں غير عرب ہيں " اور ميں اپنى والدہ اور بہن كو اكيلے اپنے سے دور نہيں ركھ سكتا، ميں نے اپنے گھر والوں كو بالكل كچھ نہيں بتايا كيونكہ وہ تو شروع سے ہى اس شخص كے ساتھ شادى كرنے كى مخالفت كرتے تھے، ليكن ميں نے اس سے شادى كرنے پر اصرار كيا تھا اس ليے كہ ميں نے اس ميں اچھا اخلاق ديكھا اور يہ كہ وہ اچھے دل كا مالك ہے، ميں اس وقت كتنى اندھى ہو چكى تھى.
بالآخر ميں نے اپنے گھر والوں كو بتا ديا كيونكہ ميں نے اپنے كانوں سے سنا كہ وہ اپنى والدہ كو ميرى شكايت لگا رہا ہے اور والدہ اسے مجھے زدكوب كر كے مجھ سے بچہ لينے كا كہہ رہى ہے، سب سے آخرى بات يہى ہے اس كے بعد ميں نے اچھے چھوڑ ديا اور اپنے ميكے چلى آئى.
اس كے پندرہ روز كے بعد ميرا خاوند يہ معلوم كرنے آيا كہ ميں نے گھر كيوں چھوڑا ہے، ليكن ميں نے اسے يہ نہ بتايا كہ ميں اس كى والدہ كے ساتھ ہونے والى بات سن چكى ہوں، ميں نے اس سے عليحدہ گھر كا مطالبہ كيا اور اس نے موافقت كى.
جب ہم نے مكان ديكھا اور خاوند مكان ديكھنے گيا تو اس نے اپنى رائے بدل لى اور دو برس تك ايسے ہى حالت رہى، اس دوران ميرے خاوند نے مجھ پر الزام لگايا كہ ميرے كسى كے ساتھ تعلقات ہيں، اور ميرى عقل كے ساتھ كھيل رہا ہے، يہ اس وقت ہوا كہ جب اس نے ديكھا كہ ميرے والد كے جاننے والے شخص نے مجھے ميرى ملازمت والى جگہ سے مجھے گھر پہنچايا، جسے ميں نے ايك روز اچانك اپنے آفس ديكھا اور نيچے ميرا خاوند ميرا انتظار كر رہا تھا تو مجھے خوف ہوا كہ كہيں خاوند مجھے نقصان نہ پہنچائے لہذا ميں نے والد صاحب كو جاننے والے شخص سے كہا كہ وہ مجھے گھر پہنچا دے.
اس كے بعد ميرے كچھ جاننے والے لوگوں كو بھيجا كہ يا تو ميں اپنے سسرالى گھر ميں واپس آ جاؤں يا پھر طلاق كے مقابلہ ميں اپنے حقوق سے دستبردار ہو جاؤں، ليكن ميں نے انكار كر ديا، اور ميں نے طلاق لينے پر اصرار كيا، ميں گھر نہيں چاہتى.
اس نے دو بار مقدمہ بھى كيا اور بالآخر ميں نے بھى طلاق كا مقدمہ كر ديا، ليكن ان آخرى پانچ ماہ ميں ميں نے بغير كسى قصد و ارادہ كے اچانك اسى شخص سے بات كى جس نے مجھے گھر پہنچايا تھا اور اسے ميرے والد صاحب جانتے ہيں اور وہ مجھ سے چودہ برس بڑا بھى ہے، ميرے ساتھ جو كچھ ہوا ميں نے اسے سب كچھ بتايا، تو اس نے ميرا ساتھ ديا، اور زندگى اور لوگوں كے متعلق اس نے مجھے كئى ايك امور سمجھائے، اور كچھ ايسے امور ہوتے ہيں جن پر خاموش نہيں رہنا چاہيے.
كہ ابتدا سے ہى ميرا اس شخص كے قريب ہونا غلط تھا اور ميں نے كسى كى كوئى نصيحت نہ سنى اور سب كى رائے كو ٹھكرا ديا، ميں ہى غلط تھى، اس كے بعد مجھے محسوس ہوا كہ ميں اس كى جانب كھنچى جا رہى ہوں، مجھے اندر سے معلوم ہے كہ ايسا كرنا غلط ہے، اور مجھے ہر وقت يہ احساس نادم كرتا رہا ہے، خاص كر اب تو ميں اس سے محبت كرنے لگى ہوں، اور جانتى ہوں كہ وہ بھى مجھ سے محبت كرتا ہے، يہ ايسا معاملہ ہے جس كى كوئى پلاننگ نہيں كى گئى تھى.
ہم كئى ايك بار مل بھى چكے ہيں، اور بيٹھ كر بہت باتيں بھى كى ہيں حتى كہ طلاق ہونے سے قبل اس نے شادى كا مطالبہ بھى كيا تھا، ميں بھى يہ چاہتى ہوں ليكن مجھے خوف ہے كہ كہيں بعد ميں مخالفت نہ ہو جائے، خاص كر جن حالات ميں يہ تعلقات قائم ہوئے ہيں، مجھے اللہ سے بھى خوف ہے كہ كہيں ميں غلطى پر تو نہيں كہ ميں نے كسى اور شخص سے محبت كى ہے حالانكہ ميں ابھى كسى اور كے نكاح ميں تھى.
يہ علم ميں رہے كہ ميں نے اپنے خاوند كو ايك بر ساور تين ماہ سے چھوڑ ركھا ہے، اور اب مجھے دو ہفتے قبل طلاق ہوئى ہے، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ آيا ميں غلطى پر ہوں اور كيا ميں نے جو كچھ كيا ہے وہ حرام ہے ؟
ميں ہميشہ اپنے اندر كى مخالفت كرتى ہوں اور بہت پريشان ہوں؛ كيونكہ ميں اللہ كو ناراض نہيں كرنا چاہتى اور كہيں ميں معصيت و نافرمانى كا ارتكاب تو نہيں كر بيٹھى.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ نے كئى ايك واضح اور بين شرعى مخالفت كى ہيں اس ليے ہميں تعجب ہوا ہے كہ آپ اپنے ليٹر كے آخر ميں لكھتى ہيں كہ: " ميں اللہ كو ناراض نہيں كرنا چاہتى، اور نہ ہى ميں معصيت كا مرتكب ہونا چاہتى ہوں " !!

بہر حال: يہ معصيت و نافرمانى كى نحوست اور اس كے اثرات ميں شامل ہے كہ عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے، اور اس نور و روشنى پر پردہ آ جاتا ہے جو اسے صحيح اور راہ مستقيم كى طرف لےجاتا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ معاصى عقل كو خراب كر ديتى ہيں، كيونكہ عقل كو نور اور روشنى حاصل ہے، اور معصيت و نافرمانى اس نور و روشنى كو ختم كر ديتى ہے، يہ ضرورى ہے كہ جب عقل كا نور ختم ہو جائے تو پھر عقل كمزور ہو جائيگى اور ناقص ہو گى.

بعض سلف رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" جب كوئى شخص اللہ كى معصيت كرتا ہے تو اس كى عقل غائب ہو جاتى ہے "

اور يہ ظاہر ہے كہ اگر اس كى عقل حاضر ہوتى تو اسے اللہ كى نافرمانى و معصيت سے روكتى، اور وہ اللہ رب العالمين كے قبضہ ميں ہے، اور يا وہ اسے اعلانيہ كرے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس پر مطلع ہے، اور اس كے گھر ميں اور اس كى چٹائى پر اور اس پر اس كے فرشتے گواہ ہيں جو اسے ديكھ رہے ہيں.

اور پھر قرآنى واعظ اسے منع كر رہا ہے، اور ايمان كے الفاظ بھى اس كو روك رہے ہيں، اور موت كا وعظ كرنے والا بھى اسے منع كر رہا ہے، اور دن بھى ايك وعظ ہے كہ جو دن معصيت ميں ختم ہوتا ہے وہ دنيا و آخرت كى خير و بھلائى سے رہ گيا: اور اس طرح اسے جو لذت و سرور حاصل ہوا وہ كہيں كم ہے، تو كيا كوئى عقل سليم ركھنے والا شخص ايسا كر سكتا ہے كہ يہ ذليل و حقير كام كرے ؟!

اور اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ: جب گناہ زيادہ ہو جائيں تو اس گنہگار كے دل پر مہر لگ جاتى ہے اور وہ غافلوں ميں سے ہو جاتا ہے، جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كے متعلق سلف كا قول ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

يوں نہيں بلكہ ان كے دلوں پر ان كے اعمال كى وجہ سے زنگ چڑھ گيا ہے المطففين ( 14 ).

اس ميں فرمايا: يہ ايك گناہ كے بعد دوسرا گناہ ہے، اور حسن رحمہ اللہ كا قول ہے:

" يہ گناہ پر گناہ ہے، حتى كہ دل اندھا ہو جائے "

اور اس كے علاوہ دوسروں كا قول ہے:

" جب ان كے گناہ و معاصى زيادہ ہو جائيں تو ان كے دلوں كو گھير ليتے ہيں "

اس كى اصل يہ ہے كہ: معصيت و نافرمانى سے دل پر زنگ لگ جاتا ہے، اور جب يہ زيادہ ہو جائے تو دل پر زنگ غالب آ جاتا ہے حتى كہ وہ زنگدار ہو جاتا ہے، پھر دل پر غالب آ جاتا ہے حتى كہ اس پر مہر اور قفل لگ جاتا ہے، اس طرح دل پردہ اور غلاف ميں ہو جاتا ہے، جب ہدايت و راہنمائى اور بصيرت كے بعد ايسا ہو جائے تو دل الٹ جاتا ہے يعنى اس كا اوپر والا نيچے تو اس حالت ميں اس كا دشمن شيطان اس پر كنٹرول كر ليتا ہے اور جہاں چاہے لے جاتا ہے.

ديكھيں: الجواب الكافى لمن سال عن الدواء الشافى ( 39 ).

ہم افسوس كے ساتھ آپ كو كہيں گے كہ: آپ نے جن معاصى كا ارتكاب كيا ہے ان معاصى ميں سے ہر ايك معصيت نے دوسرى معصيت و نافرمانى كو كھينچا ہے، اس طرح وہ دل و عقل پر اثرانداز ہو كر ان كے نور و روشنى كو ہى ختم كر بيٹھى ہے.

دوم:

آپ نے جن معصيت و نافرمانيوں كا ارتكاب كيا ہے وہ درج ذيل ہيں:

1 ـ شادى سے قبل آپ نے اپنے پہلے خاوند كے ساتھ حرام تعلقات قائم كيے، آپ كے قول سے يہى ظاہر ہے: كيونكہ آپ كہتى ہيں " يہ شادى محبت كى شادى تھى ! " اور پھر آپ نے اپنے خاندان والوں كا اس شادى سے انكار كرنے پر ان كا مقابلہ كيا، اور اب پھر دوبارہ آپ وہى حرام تعلقات قائم كرنے كا اعادہ كر رہى ہيں حالانكہ آپ ابھى پہلے خاوند كے نكاح ميں تھيں!!

مرد و عورت كے مابين خط و كتابت اور تعلقات قائم كرنے كے بارہ ميں ہم درج ذيل سوالات كے جوابات ميں بيان كر چكے ہيں آپ ان كا مطالعہ كريں:

سوال نمبر ( 34841 ) اور ( 26890 ) اور ( 23349 ).

اور حرام تعلقات كے متعلق تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 1114 ) اور ( 9465 ) اور ( 21933 ) اور ( 10532 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

2 ـ ظاہر يہى ہوتا ہے كہ آپ كى ملازمت ميں مرد و عورت كا اختلاط پايا جاتا ہے، اگر ہمارا يہ خيال اپنى جگہ صحيح ہے تو يہ بھى معصيت و نافرمانى ہے، اور اگر ملازمت والى جگہ ميں مرد و عورت ك اختلاف نہيں ـ يا پھر يہ ملازمت حرام امور مثلا بنك اور انشورنش كمپنيوں كى ملازمت نہيں ـ تو پھر آپ پر كوئى گناہ نہيں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ عورتوں كو مردوں كے ساتھ اختلاط كرنے دينا ہر شر و برائى كى جڑ ہے، اور عام عذاب و سزا كے نزول كا سب سے بڑا سبب ہے، اسى طرح عام و خاص امور ميں فساد پيدا ہونے كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے، اور مرد و عورت كا اختلاط كثرت فحاشى اور كثرت زنا كا باعث بنتا ہے اور مسلسل طاعون اور موت كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے.

ديكھيں: الطرق الحكميۃ ( 407 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 1200 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور عورت كى ملازمت كے بارہ ميں حكم اور اس كے جائز ہونے كى شروط معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22397 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور سوال نمبر ( 6666 ) كے جواب ميں عورت كے اختلاط والى جگہ پر ملازمت كرنے كے متعلق اہم نصيحتيں بيان كى گئى ہيں اس كا مطالعہ بھى كريں.

3 ـ آپ كا اپنے خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے جانا يہ بھى معصيت تھى اور اس كى بيناد آپ نے خاوند كو اپنى والدہ سے كچھ كہتے ہوئے سننا اور والدہ كا اسے ابھارنا كوئى ايسا سبب نہيں جس كى بنا پر آپ كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر سے نكلنا جائز ہو جائے.

آپ كو اپنا مستقل اور عليحدہ گھر ميں رہنے كا حق حاصل ہے، ليكن ظاہر يہى ہوتا ہے كہ آپ شادى كى ابتدا ميں اپنے اس حق سے دستبردار ہو گئى تھيں اور اپنى ساس كے ساتھ گھر ميں رہنے پر راضى ہو چكى تھيں.

بہتر تو يہى تھا كہ آپ اپنے خاوند سے اس وقت يہ شرط پورى كرنے پر سمجھوتہ كرتيں جب آپ نے اس كے ساتھ زندگى كى مشكلات ميں مدد كرنے اور اس كے قرض كى ادائيگى ميں تعاون كرنے كى رضامندى ظاہرى كى تھى، اور اسے شرعى عدالت كے ذريعہ اس شرط كو پورى كرنے كا اہتمام كرتى، يا پھر اہل خير كو اس كے ليے استعمال كرتى كہ وہ اس شرط كو پورا كروائيں.

ليكن آپ كا يہ تصرف اور اس كى اجازت كے بغير گھر سے جانا يہ جائز نہ تھا، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو رجعى طلاق والى عورتوں كو طلاق كے بعد خاوند كے گھر سے نكلنے سے منع كيا ہے، تو پھر وہ شادى شدہ عورتيں جنہيں طلاق نہيں ہوئى ان كے بارہ ميں كيا حكم ہو گا؟!

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم عورتوں كو طلاق دو ت وانہيں ان كى عدت ( كے آغاز ) ميں طلاق دو، اور عدت شمار كرو، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے، تم انہيں ان كے گھر سے نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں الا يہ كہ وہ واضح اور كھلى بے حيائى كريں، يہ اللہ كى حدود ہيں جو اللہ كى حدود سے تجاوز كريگا اس نے اپنے آپ پر ظلم كيا آپ نہيں جانتے كہ ہو سكتا ہے اللہ تعالى كوئى معاملہ پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).

ـ ان سب مخالفات ميں سب سے قبيح اور شرعى مخالفت يہ ہے كہ: آپ نے اس گنہگار مجرم سے تعلقات قائم كرنا ہے جس نے يہ ظاہر كيا كہ وہ آپ كا دنياوى مشكلات ميں خيرخواہ ہے اور اس سے چھٹكارا دلانے والا ہے، اور اس نے ايك حكيم و دانا اور ناصح كا لباس اوڑھا اور ايك امانت دار بن كر ظاہر ہوا حالانكہ اس كا اندر ايك خطرناك بھيڑيے اور چالاك لومڑى كا ہے!!

وہ مجرم شخص اس پر كيسے راضى ہوا كہ وہ آپ كو مل كر آپ سے بات چيت كرے اور آپ كے ساتھ بيٹھ خوش گپى كرتا پھرے، بلكہ اس نے تو پورى ڈھٹائى كے ساتھ خسيس حركت كرتے ہوئے آپ كو شادى كى بھى پيشكش كر دى حالانكہ آپ كسى دوسرے خاوند كى نكاح ميں تھيں!

اور تعجب والى بات تو يہ ہے كہ آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كا پہلا خاوند بھى اچھا روپ دھارے ہوئے تھا، اور آپ نے جب اس سے شادى پر رضامندى ظاہر كى تو آپ اندھى تھيں تو كيا آپ كے خيال ميں اب آپ صاحب بصيرت بن چكى ہيں ؟!

نہيں اللہ كى قسم آپ بالكل ايسى نہيں، بلكہ آپ كا اپنے پہلے خاوند كے ساتھ اندھا ہونا اس وقت آپ كے عمل سے بہت ہى آسان اور كم تر ہے، كيونكہ جب آپ كا اس سے تعلق تھا تو آپ شادى شدہ نہيں تھيں، ليكن اب تو آپ شادى شدہ ہيں اور اس كے باوجود اس مجرم شخص كے ساتھ حرام تعلقات بنا رہى ہيں.

جس شخص نے اسى پر بس نہيں كيا كہ وہ آپ اور آپ كے خاوند كے مابين اور دشمنى پيدا كرے، اور آپ كو آپ كے خاوند كے متعلق اور دل سخت كرنے كا كہے، اور آپ كو اپنے خاوند كے گھر واپس نہ پلٹنے كى تلقين كى، بلكہ اس پر ہى بس نہيں كى اور آپ كو شادى كى پيشكش كر ڈالى حالانكہ آپ اپنے خاوند كے نكاح ميں تھيں.

آپ نے جو كچھ بھى كيا بلاشك و شبہ وہ حرام ہے، اور بہت ہى قبيح و شنيع جرم ہے حتى كہ غير مسلمين كے ہاں بھى يہ جرم شمار ہوتا ہے، اور كوئى بھى خاوند يہ پسند نہيں كرتا كہ اس كى بيوى اس طرح كى حالت ميں ہو.

اور پھر كسى عقلمند كے ليے ممكن ہى نہيں ـ چہ جائيكہ وہ مسلمان شخص جو شرعى احكام كو جانتا ہو ـ كہ وہ اس مجرم سے آپ كى شادى پر موافق ہو جس كا برا اخلاق شادى سے قبل ہى واضح ہو چكا ہے!

اور يہ چيز تو آپ كے ليے اس كے ساتھ ايك اور خطرناك اور كڑوا تجربہ كا باعث بنےگا!

كيا آپ يہ خيال كرتى ہيں كہ وہ آپ كى اپنے خاوند كے ساتھ خيانت كو بھول جائيگا؟

اور كيا آپ يہ خيال ركھتى ہيں كہ وہ آپ پر بھروسہ كريگا كہ آپ اس كے ساتھ ايسا نہيں كرينگى؟!

آپ اس مجرم شخص كے ساتھ تعلقات ختم كرنے ميں بالكل تردد مت كريں، كيونكہ ايك طرف تو يہ تعلقات حرام ہيں، اور دوسرى طرف يہ امانتدار خاوند بھى ثابت نہيں ہو سكتا، كيونكہ اس سے اس طرح كے قبيح اور حرام افعال سرزد ہو رہے ہيں.

نيك و صالح خاوند كى صفات كا مطالعہ كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 5202 ) اور ( 6942 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

سوم:

ہم اميد كرتے ہيں كہ آپ كى ندامت، اور آپ كا اپنا محاسبہ كرنا ہى خير اور حق كى طرف رجوع كى دليل ہے، اور آپ كے نفس لوامہ كى زندگى كى دليل ہے جو آپ كو قبيح كام پر ملامت كر رہا ہے، اور اطاعت و فرمانبردارى ميں كوتاہى پر ملامت كر رہا ہے.

آپ شيطان كے پيچھے چلنے سے بچ كر رہيں كيونكہ وہ آپ كو تباہى كے دھانے تك پہنچا كر چھوڑےگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تم شيطان كى پيروى مت كرو، اور جو كوئى بھى شيطان كے قدموں كى پيروى كرے تو وہ تو بے حيائى اور برے كاموں كا ہى حكم كرےگا، اور اگر اللہ تعالى كا فضل و كرم تم پر نہ ہوتا تو تم ميں سے كوئى بھى كبھى بھى پاك صاف نہ ہوتا النور ( 21 ).

ندامت و توبہ كى فرصت حاصل ہونے پر اس ميں كوتاہى سے كام مت ليں، ايسا دن آنے سے قبل توبہ كر ليں جس دن نہ تو انسان كے كوئى دينار كام آئيگا اور نہ ہى درہم، اور نہ ہى كوئى دوست اور نہ ہى سفارشى، اس سے قبل توبہ كرليں جس دن انگليوں كو ندامت كے ساتھ كاٹا جائيگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں كو چبا چبا كر كہےگا ہائے كاش ميں نے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى راہ اختيار كر لى ہوتى، ہائے افسوس كاش كہ ميں نے فلاں كو دوست نہ بنايا ہوتا، اس نے تو ميرے پاس نصيحت آنے كے بعد مجھے گمراہ كر ديا، اور شيطان تو انسان كو ( وقت پر ) دھوكہ دينے والا ہے الفرقان ( 27 - 29 ).

اپنے آپ كو گناہوں نے پاك كرنے كے ليے اور اپنے دين اور ايمان و عفت و عصمت كى حفاظت كرنے كے ليے آپ درج ذيل امور كى حرص ركھيں:

1 ـ خشوع و خضوع كے ساتھ نماز پنجگانہ كى بروقت ادائيگى.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے يہ بتاؤ كہ اگر كسى شخص كے دروازے كے سامنے نہر ہو اور وہ اس نہر ميں روزانہ پانچ بار غسل كرے تو كيا اس كے جسم پر كوئى ميل كچيل باقى رہےگى؟

صحابہ كرام نے عرض كيا: اس كے جسم پر كوئى ميل كچيل نہيں رہےگى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو نمازوں كى يہى مثال ہے اللہ سبحانہ و تعالى ان نمازوں سے گناہوں كو مٹاتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 505 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 667 ).

2 ـ آپ نيك و صالح عورتوں كى رفاقت و دوستى اختيار كريں جو اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت كرنے والى ہوں.

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نيك و صالح اور برے دوست كى مثال خوشبو والے اور لوہار كى بھٹى كى طرح ہے، خوشبو والے سے يا تو آپ خوشبو خريد ليں گے، يا پھر اس سے خوشبو پائيں گے، اور لوہار كى بھٹى آپ يا تو آپ كے كپڑے جل جائيں گے، يا پھر آپ اس سے گندى بو اور دھواں پائيں گے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1995 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2628 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں صالحين اور اہل خير و بھلائى اور صاحب مروت اور مكارم اخلاق، اور اہل ورع و تقوى اور علم و ادب كى مجالس ميں بيٹھنے كى فضيلت ، اور شر و برائى اور اہل بدعت اور لوگوں كى غيبت كرنے والوں كى مجلس، يا پھر زيادہ فسق و فجور كرنے والوں كى مجلس ميں بيٹھنے كى ممانعت كى گئى ہے اور يہ مذموم انواع ميں سے ہے.

ديكھيں: شرح المسلم ( 16 / 178 ).

3 ـ گانا بجانا اور موسيقى نہ سننا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور بعض لوگ ايسے بھى ہيں جو لغو باتوں كو مول ليتے ہيں كہ بے علمى كے ساتھ لوگوں كو اللہ كى راہ سے بہكائيں اور اسے ہنسى بنائيں، يہى وہ لوگ ہيں جن كے ليے رسول كرنے والا عذاب ہے

اور جب اس كے سامنے ہمارى آيتيں تلاوت كى جاتى ہيں تو تكبر كرتا ہوا اس سے منہ پھير ليتا ہے گويا اس نے سنا ہى نہيں گويا كہ اس كے دونوں كانوں ميں ڈاٹ لگے ہوئے، آپ اسے المناك عذاب كى خبر سنا ديجئے لقمان ( 6 - 7 ).

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

گانے بجانے والے اور موسيقى سننے والوں اور قرآن مجيد كو چھوڑ كر موسيقى اور گانے ميں مشغول ہونے كے حساب سے مذمت حاصل ہوگى چاہے وہ پورى اور سارى مذمت نہ بھى حاصل كريں انہيں كچھ نہ كچھ ضرور حاصل ہوگى...

اس كى وضاحت اس طرح ہوتى ہے كہ: آپ ديكھيں كے جو بھى گانے اور موسيقى ميں مشغول ہوتا ہے اسے آپ علم و عمل كى راہ سے ہٹا اور گمراہ پائيں گے، اور اس ميں قرآن مجيد سے ہٹ كر گانا بجانا اور موسقى سننے كى رغبت ہے.

كہ اگر اس پر گانا بجانا اور قرآن مجيد سننا پيش كيا جائے تو وہ قرآن مجيد كو چھوڑ كر گانا بجانا سننا شروع كريگا، اور قرآن مجيد سننا اس كے ليے بھارى ہوتا ہے، اور بعض اوقات تو ہو سكتا ہے كہ قارى كو ہى خاموش كرا دے اور اس كى قرآت لمبى كرے اور گانا بجانا زياد كر دے، اور اس كى بارى كم ہو "

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 240 - 241 ).

آخرى بات يہ ہے كہ:

شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

مسلمان كو چاہيے كہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ كرے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كے سامنے سرتسليم خم كرنے ميں جلدى كرے، اور اپنے آپ كو اللہ سبحانہ و تعالى كے عذاب اور اس كى ناراضگى و غضب سے بچانے ميں آگے بڑھے.

اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ معصيت و نافرمانى ميں مشغول رہے، يا پھر نفس اور شيطانى كى پيروى كرتے ہوئے توبہ ميں تاخير كرے، اور توبہ كرنے ميں اسے لوگوں كى لعنت و ملامت نہيں ديكھنى چاہيے كہ لوگ اس كو ملامت كرينگے.

بلكہ اس پر واجب ہے كہ وہ اللہ كا ڈر و خشيت اختيار كرے نہ كہ لوگوں سے ڈرتا پھرے، چاہے لوگ معاصى و نافرمانى كرتے ہوں، اس كے ليے ان كى پيروى و اقتدا كرنا جائز نہيں، بلكہ اس كو چاہيے كہ وہ توبہ و استغفار كرے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے گھر والوں كو جہنم كى آگ سے محفوظ كر لے جس ايندھن لوگ اور پتھر ہيں التحريم ( 6 ).

اور اللہ سبحانہ و تعالى كى ناراضگى كے معاملہ ميں ان سے ڈھيل مت كرے.

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الفوزان ( 2 / 293 ).

واللہ اعلم .

خاوند اور بیوی کے درمیان معاشرت طلاق مرد و عورت کے درمیان تعلقات عشق اور فحاشی کی مبادیات نفسیاتی اور سماجی مسائل
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔