"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ہمارى عزيز بہن يہ مشكل حل كرنے كے ليے تين امور كى نصيحت كرتے ہيں:
سب سے پہلے بہنوئى كے اس فعل كا يقين.
اور اگر ان برائيوں كا ثبوت مل جائے تو اسے نصيحت كريں.
اور اگر وہ اس فعل پر مصر رہے تو پھر نكاح فسخ كر ليں، چاہے وہ فعل نماز كى عدم ادائيگى ہو يا فحش كام.
رہا پہلا معاملہ تو اصل ميں مسلمان شخص برى ہے اور كسى بھى مسلمان شخص پر كوئى ايسى تہمت نہيں لگانى چاہيے جو اس ميں نہ پائى جاتى ہو، وگرنہ تہمت لگانے والا گنہگار ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں كو بغير كسى جرم كے ايذاء ديں جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ بڑے ہى بہتان اور صريح گناہ كا بوجھ اٹھاتے ہيں الاحزاب ( 58 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:
اے ايمان والو! اگر تمہارے پاس كوئى فاسق خبر لائے تو اس كى اچھى طرح تحقيق كر ليا كرو، ايسا نہ ہو كہ نادانى ميں كسى قوم كو ايذاء پہنچا دو پھر اپنے كيے پر پيشمانى اٹھاؤ الحجرات ( 6 ).
شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہ بھى ان آداب ميں شامل ہوتا ہے جو عقلمندوں كو استعمال كرنے اور جن آداب سے متصف ہونا لازم ہے، وہ يہ كہ جب كوئى فاسق انہيں خبر دے تو وہ اس خبر كى اچھى طرح تحقيق كر ليا كريں، اسے فورى طور پر حاصل نہ كر ليا كريں؛ كيونكہ اس ميں بہت خطرناكى پائى جاتى ہے، اور گناہ ميں واقع ہونے كا باعث ہے.
كيونكہ اس كى اس خبر اگر سچى اور پكى خبر كا درجہ ديا جائے اور ايك عادل شخص كى خبر كا درجہ ديا جائے تو اس كے موجب اور مقتضى پر عمل كياجائيگا، تو اس طرح اس خبر كے سبب كئى ناحق جانيں اور مال تلف ہونگے، جو بعد ميں ندامت كا باعث بنےگا.
بلكہ فاسق كى خبر آنے پر اس كى اچھى طرح تحقيق اور يقين كرنا واجب ہے، اور اگر دلائل اور قرائن اس كى صداقت پر دلالت كرريں تو اس پر عمل كياجائيگا اور اس كى تصديق كى جائيگى، اوراگر اس كے جھوٹ پر دلالت كريں تو اسے جھٹلا ديا جائيگا، اور اس پر عمل نہيں ہو گا.
پھر اس آيت ميں يہ بھى دليل ہے كہ ايك صادق و سچے شخص كى خبر مقبول ہے، اور جھوٹے اور كاذب شخص كى خبر مردود ہے اسے قبول نہيں كيا جائيگا، اور فاسق شخص كى خبر پر توقف كيا جائيگا جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں "
ديكھيں: تفسير سعدى ( 799 ).
اس ليے اصل يہى ہے كہ تہمت نہ لگائى جائے، اور اصل بريت ہى ہے، اور جس نے اس كے اعتراف كا گمان كيا ہے ہو سكتا ہے اس كى جانب سے ہى جھوٹ بولا گيا ہو، اور يہ چيز كوئى بعيد نہيں، اور اگر خبر دينے والے كى سچائى اور صدق واضح ہو جائے، اور جو كچھ ہوا ہے اس كے صحيح ہونے كى تصديق مل جائے تو پھر ہم اس كى طرف جائينگے:
دوسرى چيز:
اور وہ اسے وعظ و نصيحت كرنا ہے.
تميم دارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دين خير خواہى ہے.
ہم نے عرض كيا: كس كى خير خواہى ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ كے ليے، اور اس كى كتاب كے ليے، اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے ليے، اور مسلمان اماموں كے ليے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 55 ).
اور جرير بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" ميں نے نماز كى پابندى اور زكاۃ كى ادائيگى اور ہر مسلمان كى خير خواہى كرنے پر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيعت كى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 501 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 56 ).
اور نصيحت اچھے اور احسن انداز سے اور اچھے اسلوب ميں كرنى چاہيے تا كہ غلط راہ پر چلنے وال ٹيڑھا شخص سيدھا ہو جائے، اور اس كى راہ صحيح ہو جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اپنے رب كى راہ كى طرف لوگوں كو حكمت اور بہترين نصيحت كے ساتھ بلايئے، اور ان سے بہترين طريقے سے گفتگو كيجئے، يقينا آپ كا رب اپنى راہ سے بہكنے والوں كو بھى بخوبى جانتا ہے، اور راہ راست پر چلنے والے لوگوں سے بھى پورا واقف ہے النحل ( 125 ).
اور سب سے پہلے اسے نماز ادا كرنے كى نصيحت كريں، اسے يہ ضرور معلوم ہونا چاہيے كہ نماز ترك كرنا كفر ہے، اور تارك نماز ملت اسلاميہ سے خارج ہو جاتا ہے اور اگر وہ تارك نماز كى حالت ميں ہى مر گيا تو اس كى موت جاہليت كى موت ہے، اور وہ مرتد ہو كر مريگا.
پھر اس كے بعد اسے يہ حرام كام ترك كرنے كى نصيحت كى جائے، جو وہ ان ملازماؤں كے ساتھ فحش اور برائى كے كام كرتا ہے، اور كسى دوسرے كو بھى ان كے ساتھ حرام كرنے ميں معاونت كرنے كے ليے لڑكياں سپلائى كرتا ہے، بلكہ اگر خادمات اور ملازمائيں صرف كام كاج كے ليے لائى جائيں تو اصلا اس ميں بھى بہت سارى خرابياں پائى جاتى ہيں.
ملازماؤں اور خادمات كے متعلق كلام اور انہيں دوسرے ملكوں سے منگوانے كا حكم، اور جن گھروں ميں يہ خادمات اور ملازمائيں كام كرتى ہيں ان كے مالكان جو غلط كام اور ممانعت ميں واقع ہوتے ان كے متعلق آپ كو سوال نمبر ( 26282 ) كے جواب ميں آپ كو تفصيل ملےگى، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اگر اس كے متعلق جو بات كہى گئى ہے اس كى سچائى ثابت ہو جائے، اور وہ نصيحت قبول نہ كرے اور ترك نماز اور برائياں كرنے پر اصرار جارى ركھے تو پھر آپ كو تيسرى چيز پر عمل كرنا چاہيے:
اور وہ تيسرى چيز يہ ہے كہ نكاح فسخ كرتے ہوئے اس اور اس كى بيوى كے درميان جدائى اور تفريق كر دى جائے؛ كيونكہ تارك نماز مرتد ہے، اور اس كا عقد نكاح مسلمان عورت سے فسخ ہو جاتا ہے؛ اور اس ليے بھى كہ كسى عفت و عصمت كى مالك عورت كے ليے كسى زانى اور فاجر كے نكاح ميں باقى رہنا حلال نہيں.
اور ترك نماز فسخ نكاح كا موجب ہے، رہا مسئلہ دوسرى منكرات اور برائيوں كا تو يہ فسخ نكاح كى موجب نہيں، ليكن بيوى كا اس طرح كے برے افعال پر راضى ہونا اس ميں شريك ہونے كے مترادف ہے، اور اس طرح كے شخص پر نہ تو اس كى بيٹى اور نہ ہى بيوى كے بارہ ميں اطمنان كيا جا سكتا ہے، اور نہ ہى پرامن رہا جا سكتا ہے، اور اسى طرح خطرناك قسم كى بيمارياں منتقل ہونے كا بھى خدشہ ہے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
نماز ترك كرنا كفر اور ملت اسلاميہ سے خارج ہونا ہے، اور اگر اس كى بيوى ہو تو اس كا نكاح اس سے فاسخ ہو جائيگا، اور اس كا ذبيحہ بھى حلال نہيں، اور نہ ہى اس كا روزہ قبول ہوگا، اور نہ ہى صدقہ و خيرات، اور اس كے ليے مكہ جانا اور حرم ميں داخل ہونا بھى جائز نہيں.
اور اگر وہ مر جائے تو اسے غسل دينا اور كفن دينا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ پڑھائى جائيگى، اور اسے مسلمانوں كے قبرستان ميں بھى دفن نہيں كيا جائيگا، بلكہ اسے صحرا ميں ليجا كر گڑھا كھود كر اس ميں ڈال كر مٹى ڈال دى جائيگى.
اور جس كسى كا كوئى قريبى رشتہ دار فوت ہو جائے اور اسے علم ہو كہ وہ نماز ادا نہيں كرتا تھا تو اس كے ليے لوگوں كو دھوكہ دينا جائز نہيں كہ وہ انہيں اس كى نماز جنازہ پڑھنے كا كہے؛ كيونكہ كافر كى نماز جنازہ ادا كرنا حرام ہے؛ اس ليے كہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور ان ميں سے كوئى مر جائے تو آپ اس كا نماز جنازہ ہرگز نہ پڑھيں، اور نہ ہى اس كى قبر پر كھڑے ہوں، يہ اللہ اور اس كے رسول كے منكر ہيں التوبۃ ( 84 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
نبى اور دوسرے مسلمانوں كو جائز نہيں كہ مشركين كے ليے مغفرت كى دعا مانگيں اگرچہ ان كے رشتہ دار ہى ہوں اس امر كے ظاہر ہو جانے كے بعد كہ يہ لوگ جہنمى ہيں التوبۃ ( 113 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 10094 ) اور ( 2182 ) اور ( 5208 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
ليكن ہم ايك بار پھر پلٹ كر عزيز سائلہ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ اس شخص كے متعلق اس طرح كى باتيں كرنے ميں جلد بازى كا مظاہر مت كريں، يا بغير كسى شرعى دليل كے اسے اپنى بہن كو مت بتائيں، اور اس كى زندگى خراب مت كريں، اور گھر تباہ كرنے كا باعث نہ بنيں، اور بيماريوں كے منتقل ہونے اور ازدواجى خيانت كى بجائے اللہ كى حدود كى حرمت پامال ہونے پر ہميں زيادہ غيرت مند ہونا چاہيے.
اور آپ اس كے ليے ہدايت كى پورى كوشش سے دعا كريں اور اپنى بہن كے حالات كى اصلاح طلب كريں، اور اس كى اولاد كو ہر قسم كى برائى و شر شرير قسم كے افراد سے محفوظ ركھنے كى دعا مانگيں.
واللہ اعلم .