"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
نماز ترك كرنا كفر اكبر ہے، اور تارك نماز ملت اسلاميہ سے خارج ہو جاتا ہے، اس كے قرآن و سنت اور اجماع صحابہ سے دلائل ملتے ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
ہر شخص اپنے اعمال كے بدلے ميں گروى ہے، مگر دائيں ہاتھ والے، كہ وہ جنتوں ميں ( بيٹھے ) گنہگاروں سے سوال كرتے ہونگے، تمہيں جہنم ميں كس چيز نے ڈالا، وہ جواب دينگے كہ ہم نماز ادا نہيں كرتے تھے المدثر ( 38 - 43 ).
اور جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:
" آدمى اور كفر و شرك كے درميان نماز كا چھوڑنا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جو كوئى بھى مكلفين ميں سے فوت ہو اور نماز ادا نہ كرتا ہو تو وہ كافر ہے، اسے نہ تو غسل ديا جائيگا، اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ پڑھى جائيگى، اور نہ ہى وہ مسلمانوں كے قبرستان ميں دفن كيا جائيگا، اور نہ ہى اس كے رشتہ دار اس كے وارث ہونگے بلكہ اس كا مال مسلمانوں كے بيت المال ميں جمع كرايا جائيگا علما كرام كا صحيح قول يہى ہے؛ كيونكہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان نماز كا عہد ہے، جو كوئى بھى نماز چھوڑے وہ كافر ہے "
اسے امام احمد اور اہل سنن نے صحيح سند كے ساتھ بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
اور جليل القدر تابعى عبد اللہ بن شقيق عقيلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام ترك نماز كے علاوہ كوئى فعل كفر نہيں سمجھتے تھے "
اس موضوع ميں اور بھى بہت سارى احاديث اور آثار پائے جاتے ہيں.
يہ تو اس شخص كے بارہ ميں ہے جو نماز كى فرضيت كا انكار نہيں كرتا بلكہ اس كى ادائيگى ميں سستى و كاہلى سے كام ليتا ہے، ليكن جو شخص نماز كى فرضيت كا ہى منكر ہو تو وہ كافر ہے، اور سب اہل علم كے ہاں اسلام سے مرتد ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 250 ).
دوم:
ترك نماز كى حالت ميں فوت ہونے والے شخص ميں كوئى فرق نہيں كہ وہ مسلمان ملك ميں فوت ہو يا كفريہ ملك ميں ليكن يہ ہو سكتا ہے كہ اگر وہ مسلمانوں كے درميان بستے ہوئے نماز ترك كرے تو اس كا گناہ اور زيادہ ہو؛ كيونكہ وہ لوگوں كو نماز ادا كرتے ہوئے ديكھتا، اور آذان كى آواز ہر وقت سنتا ہے.
سوم:
ہو سكتا ہے كہ كوئى شخص كفريہ ملك ميں رہتے ہوئے اسلام قبول كرے اور اسے اركان اسلام اور واجبات مثلا نماز وغيرہ كا علم ہى نہ ہو، اس كا تصور تو اس شخص كے بارہ ميں كيا جا سكتا ہے جو دور كسى ايسى بستى ميں رہتا ہو جو علم اور مسلمانوں سے دور ہو، يا پھر جنگلوں ميں ہو، تو ايسے شخص پر كافر كا حكم نہيں لگايا جائيگا، بلكہ اس كے گناہ كا بھى نہيں كيونكہ وہ جاہل ہونے كى بنا پر معذور ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ليكن بعض لوگوں كو ان احكام سے جاہل ہو نے كى بنا پر معذور تسليم كيا جائيگا، اور كسى كے كفر كا حكم اس وقت تك نہيں لگايا جائيگا جب تك اس پر تبليغ رسالت كى حجت قائم نہ ہو جائے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تا كہ لوگوں كى كوئى حجت اور الزام رسولوں كے بھيجنے كے بعد اللہ تعالى پر نہ رہ جائے النساء ( 165 ).
اس ليے اگر كوئى شخص مسلمان ہو اور اسے علم نہ ہو كہ اس پر نماز فرض ہے، يا اسے شراب كى حرمت كا علم نہ ہو تو وہ
اس كے عدم وجوب اور عدم تحريم كا اعتقاد ركھنے پر كافر نہ ہو گا، بلكہ اسے سزا بھى نہيں ہوگى، حتى كہ اس تك حجت نبوى ن پہنچ جائے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 11 / 406 ).
اور ابن حزم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ اگر كوئى شخص اسلام قبول كرے اور اسے اسلامى قوانين اور احكام كا علم نہ ہو اور وہ شراب حلال اور انسان پر نماز فرض نہ ہونے كا اعتقاد ركھے اور اس كے متعلق اسے اللہ كا حكم بھى نہ پہنچا ہو تو وہ بغير كسى اختلاف كے كافر نہيں ہو گا، حتى كہ اس پر حجت قائم ہو جائے اور وہ اس كا انكار كرے تو پھر بالاجماع وہ كافر ہو ہے "
ديكھيں: محلى ابن حزم ( 11 / 206 ).
اس جہالت ميں شرط يہ ہے كہ جاہل شخص اس جہالت كو سوال اور طلب علم كے ساتھ دور كرنے پر قادر نہ ہو.
قرافى المالكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" شرعى قاعدہ اس پر دلالت كرتا ہے كہ جس جہالت كو دور كرنا ممكن ہو وہ جاہل شخص كے ليے حجت نہيں بن سكتى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے رسولوں كو رسالت ديكر مخلوق كى جانب مبعوث كيا، اور ان سب پر اس كى تعليم اور اس پر عمل واجب كيا، اس ليے علم اور عمل دونوں واجب ہيں جو كوئى بھى حصول علم اور عمل كو ترك كر كے جاہل رہے تو وہ دو معصيت كا مرتكب ہوا كيونكہ اس نے دو واجب ترك كيے ہيں.
ديكھيں: الفروق ( 4 / 264 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ عذر اس وقت بن سكتا ہے جب اسے زائل كرنے سے عاجز ہو، وگرنہ جب بھى انسان كو حق كى معرفت حاصل كرنا ممكن ہو اور وہ اس ميں كوتاہى كرے تو معذور نہيں ہو گا "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 20 / 280 ).
اور شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" تعليم حاصل كرنے والا جب حصول تعليم ميں كوتاہى كرے اور لوگوں كى آراء كو علم وحى پر مقدم كرے تو يہ شخص معذور نہيں "
ديكھيں: اضواء البيان ( 7 / 357 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 10065 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم