"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
جب حاجي فريضہ حج كي ادائيگي كےليے جائے توكيا اس پرقرباني كرنا واجب ہے اور كيا وہ اپنے ملك ميں بھي قرباني كرے ؟
الحمد للہ.
1 - حج كي تين اقسام ہيں : حج مفرد ، حج تمتع ، حج قران .
حج مفرد : حج مفرد يہ ہے كہ حاجي صرف اكيلاحج ہي ادا كرے ، اور حج تمتع يہ ہے كہ حاجي عمرہ كي ادائيگي كے بعد احرام كھول دے اور پھر حج ادا كرے , اور حج قران يہ ہے كہ حاجي عمرہ اور حج كوايك ہي احرام ميں ملا كرادا كرے اور اسے حج اور عمرہ كےليے ايك طواف اورسعي كافي ہے .
عروہ بن زبير عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا سے بيان كرتے ہيں كہ : عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا كہتي ہيں كہ ہم ذوالحجہ كےقريب نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےساتھ نكلے تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا : جوعمرہ كا احرام باندھنا چاہے وہ باندھ لے اور جوحج كا احرام باندھنا چاہے وہ حج كا احرام باندھ لے ، اور اگر ميں نے اپنےساتھ قرباني نہ لي ہوتي ميں بھي عمرہ كا احرام باندھتا ، توصحابہ كرام ميں سے كچھ نے عمرہ كا احرام باندھا اور كچھ نے حج كا ... صحيح بخاري ( 1694 ) صحيح مسلم ( 1211 ) .
2 - حج مفرد : يہ صرف حج ہے اور اس سے پہلے عمرہ نہيں ہوتا ، اور حج مفرد كرنے والے پر قرباني واجب نہيں ليكن قرباني كرنا مستحب ہے .
3 - ليكن حج تمتع اور حج قران ميں قرباني كرني واجب ہے ، اور يہ شكرانے كي قرباني ہے جس ميں حاجي اپنے رب كا شكرادا كرتا ہے كہ اس نے يہ عبادت مشروع كي ، اور حج تمتع ميں حاجي عمرہ اورحج كوجمع كرتا ہے اور عمرہ كرنے كےبعد احرام كھول كرحلال ہوجاتا اور لباس خوشبواور بيوي سے ہم بستري وغيرہ كا نفع حاصل كرتا ہے اس ليے اسے حج تمتع كہتے ہيں
سليم بن عبداللہ بيان كرتے ہيں كہ ابن عمر رضي اللہ تعالي نے فرمايا : رسول كريم صلي اللہ نے حجۃ الوداع كے موقع پر عمرہ كےساتھ حج كا نفع حاصل كيا اور ذوالحليفہ سے اپنےساتھ قرباني لے كر چلے اور عمرہ كا احرام باندھا پھر حج كا، اور لوگوں نے نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےساتھ حج تمتع كيا تولوگوں ميں كچھ ايسے بھي تھے جوقرباني لے كرگئے اور كچھ ايسے بھي تھے جن كےپاس قرباني نہيں تھي .
جب نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم مكہ مكرمہ پہنچے تو لوگوں كو فرمايا : جس كےپاس قرباني ہے وہ حلال نہ ہو حتي كہ حج مكمل كرلے اور جس كےپاس قرباني نہيں وہ بيت اللہ كا طواف اور صفامروہ كي سعي كركے اپنے بال چھوٹے كروائے اور احرام كھول كرحلال ہوجائے اور پھر بعد ميں حج كا احرام باندھے، توجوكوئي قرباني نہ پائے وہ تين روزے دوران حج اور سات روزے واپس اپنے گھر جاكر ركھے . صحيح بخاري ( 1606 ) صحيح مسلم ( 1227 ) .
4 - اور ھدي اس قرباني كوكہتے ہيں چوپايوں يعني گائے ، بكري ، اونٹ ميں سے جوجانور حاجي احرام باندھنے سے ميقات سے قبل اپنے ساتھ لے كر بيت اللہ ليجائے , اور حج قران اور حج تمتع كرنے والے ميں فرق يہ ہے كہ حج قران كرنے والا عمرہ كرنے كےبعد احرام كھول كرحلال نہيں ہوتا بلكہ وہ آٹھ ذوالحجہ تك اپنے احرام ميں ہي رہتا ہے جوكہ حج كا ابتدائي دن ہے .
اور سنت يہ ہے كہ دس ذوالحجہ جسے يوم النحر كہا جاتا ہے والے دن يہ قرباني كي جائے .
سالم بن عبداللہ بيان كرتے ہيں كہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنھما نے فرمايا: رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے عمرہ كوحج كےساتھ ملانے كا نفع حاصل كيا اور قرباني دي يہ قرباني اپنےساتھ لے كرچلے ..... وہاں سے پلٹے اور صفا مروہ پرآكر سات چكرلگائے اور احرام كھول حلال نہيں ہوئے بلكہ حج مكمل كيا اور يوم النحر كوقرباني كرنے اور طواف افاضہ كرنے كے بعد ہر چيز سے حلال ہوئے . صحيح بخاري ( 1606 ) صحيح مسلم ( 1227 )
5 - اور كسي حاجي كےذمہ لازم نہيں كہ وہ اپنے ملك ميں قرباني كرے كيونكہ قرباني حج كے اعمال ميں سے ہے اور اس كا مكہ ميں ميں ذبح كرنا ضروري ، حتي كہ اگر حاجي سے اگر كوئي ممنوعہ چيز كا ارتكاب ہو جائے تو وہ اس كے بدلے ميں جانور اپنےملك ميں ذبح نہيں كرے گا بلكہ اسےمكہ يا مني ميں ذبح كرنا ہوگا .
عبدالعظيم آبادي كہتے ہيں : متفقہ طور پر سب قربانياں حرم كي زمين پر ذبح كرني جائز ہيں ، ليكن حج كي قرباني كے ليے مني افضل ہے اور مكہ خاص كر مروہ عمرہ كي قرباني كےليے افضل ہے . انتہي
ليكن اگر حاجي كے ملك ميں اس كے اہل وعيال ہيں اور اس نے انہيں اتني رقم دي ہے كہ وہ اس سے قرباني خريد كر عيد كےدن ذبح كريں تويہ بہت اچھااور بہتر ہے .
واللہ اعلم .