اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

مشت زنى كى بنا پر كئى روزے نہيں ركھے

18-07-2011

سوال 105846

ميرى تقريبا بيس برس ہے ميں مشت زنى جيسى بيمارى كا شكار ہوں، كئى رمضان گزرے ہيں ميں دن كے وقت رمضان المبارك ميں مشت زنى كرتا رہا ہوں، حالانكہ مجھے اس كے حكم كا بھى علم تھا اس كے باوجود ميں نے سستى و كوتاہى كى بنا پر روزوں كى قضاء نہيں كى، اس طرح دوسرا رمضان آ جاتا اور ميں پھر وہى عمل دہراتا.
اب پھر رمضان المبارك قريب آ رہا ہے اور ميں نے ان دنوں پختہ عزم كے ساتھ سچى و پكى توبہ كرنے كا ارادہ كر ركھا ہے، ليكن ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ پچھلے بيتے ہوئے ايام كا ميرے ذمہ كيا واجب ہوتا ہے ؟
مجھے ياد ہے كہ پچھلے رمضان المبارك ميں چار دن ميں نے مشت زنى كى كيا ميرے ذمہ اس كى قضاء ہے ؟
اور اگر قضاء واجب ہے تو كيا ميں اس رمضان كے بعد قضاء كر سكتا ہوں، كيونكہ ميں غير اسلامى ملك ميں تعليم حاصل كر رہا ہوں جہاں كلاسز كے دوران روزہ ركھنا بہت مشكل ہوتا ہے كيونكہ پڑھائى كے اوقات تبديل نہيں كيے جاتے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كى توبہ قبول فرمائے اور آپ كے گناہ معافر كرے، اور آپ كو اطاعت و فرمانبردارى پر ثابت قدم ركھتے ہوئے استقامت سے نوازے.

رمضان المبارك ميں جان بوجھ كر عمدا روزہ توڑنا بہت بڑا گناہ اور عظيم جرم ہے؛ كيونكہ يہ ايسے فرض كو توڑنے كا جرم ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر فرض كيا ہے، اور ہم سے پہلے لوگوں پر بھى يہ روزے فرض كيے گئے تھے.

اور اگر فرض پر يہ زيادتى كسى اور گناہ كے ذريعہ كى گئى ہو يعنى مشت زنى جيسے حرام كام كے ذريعہ تو كئى ايك گناہ جمع ہو جاتے ہيں، اللہ سبحانہ و تعالى سے عافيت كى طلبگار ہيں.

اس حرام مشت زنى كى حرمت كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 40589 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں، كہ روزہ توڑنے ميں كا كيا اثر ہوتا ہے.

دوم:

آپ نے جن ايام كے روزے توڑے ہيں ان كى قضاء ميں روزے ركھنا آپ كے ذمہ واجب ہے، اور اگر رمضان سے قبل آپ يہ نہ ركھ سكيں تو آپ كے ذمہ قرض ہونگے، اس ليے رمضان گزرنے كے بعد آپ پر يہ روزے ركھنا لازم ہيں.

اور احتياط اس ميں ہے كہ آپ ہر روزہ كى قضاء كے ساتھ ايك مسكين كو بطور فديہ كھانا بھى ديں، يعنى نصف صاع چاول وغيرہ، اور نصف صاع ڈيڑھ كلو وزن بنتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس كے ذمہ رمضان المبارك كے روزے ہوں تو وہ آنے والے رمضان تك اسے مكمل كر سكتا ہے؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ان كے ذمہ رمضان المبارك كے روزے ہوتے تو ميں شعبان آنے تك اسے قضاء نہ كر سكتى تھى اور شعبان ميں وہ روزے مكمل كرتى " متفق عليہ.

بغير كسى عذر كے دوسرے رمضان تك ان روزوں كو مؤخر كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ايسا نہيں كرتى تھيں، اور اگر ايسا كرنا ممكن ہوتا تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا ضرور كرتيں.

لہذا اگر وہ دوسرا رمضان آنے تك روزے نہيں ركھتا تو پھر ہم ديكھيں گے كہ اگر اس ميں اسے كوئى عذر تھا تو پھر وہ صرف قضاء ميں روزے ہى ركھےگا، اور اگر بغير عذر اس نے اس ميں تاخير كى تو پھر اسے ہر روزے كى قضاء كے ساتھ ايك مسكين كو كھانا بھى دينا ہوگا.

ابن عباس اور ابن عمر اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم اور مجاہد اور سعيد بن جبير اور مالك اور ثورى، اوزاعى شافعى اور اسحاق رحمہم اللہ كا قول يہى ہے.

ليكن حسن، نخعى اور ابو حنيفہ رحمہم اللہ كہتے ہيں كہ اس ميں فديہ نہيں؛ كيونكہ روزے واجب تھے، اس ليے اس كى تاخير كرنے ميں اس پر فديہ واجب نہيں ہوگا، جيسا كہ اگر كوئى شخص نذر اور ادائيگى ميں تاخير كر دے تواس پر فديہ نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 3 / 40 ).

اور سال ميں تكرار كى بنا پر كفارہ ميں تكرار نہيں ہوگا اس ليے جس نے بھى بغير كسى عذر كے كئى برس كے رمضان كے روزوں ميں تاخير كى تو اس پر ہر دن كے بدلے ايك ہى فديہ آئيگا.

واللہ اعلم .

روزوں کی قضا
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔