اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

خلع حاصل كرنے كے بعد والد اسى خاوند سے نكاح نہيں كرنے ديتا

16-06-2010

سوال 106437

ايك شخص نے عدالت ميں اپنى بيوى كو سسر كے دباؤ كے تحت ايك طلاق دى يہ طلاق بتاريخ ( 8 / 2 / 1428 ) ہجرى كو ہوئى اور اب ( 28 / 6 / 1428 ) تاريخ ہو چكى ہے اور اس كا معاوضہ بھى تھا، حقيقت ميں خاوند اپنى بيوى كو چاہتا ہے، اور بيوى بھى اپنے خاوند كو چاہتى ہے، كيونكہ وہ چودہ برس تك خاوند اور بيوى رہے ہيں، خاوند اپنى بيوى كا سعودى عرب اور باہر كے ممالك ميں علاج معالجہ كراتا رہا ہے، اور اب بيوى كے خاندان كا كوئى شخص اس كا علاج معالجہ نہيں كروا رہا، اور بيوى كى صحت دن بدن كمزورى ہوتى جا رہى ہے اور وہ اپنے خاوند كے پاس واپس آنا چاہتى ہے، كيا كيا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر تو طلاق معاوضہ پر ہوئى ہے تو خلع كہلاتا ہے جس سے بيوى اپنے خاوند سے بائن صغرى ہو جاتى ہے، اور جب خاوند اور بيوى دونوں آپس ميں رجوع كرنا چاہيں تو وہ نيا نكاح كر سكتے ہيں.

اور جب خاوند اس سے نكاح كر لے تو وہ بيوى اس كے پاس واپس آ جائيگى اور اسے باقى طلاق كا حق حاصل رہے، اس ليے اس كے پاس دو طلاقيں رہ جائينگى، اور خلع كو طلاق شمار نہيں كيا جائيگا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" " چنانچہ ہر وہ لفظ جو معاوضہ كے ساتھ تفريق پر دلالت كرتا ہو وہ خلع ہے چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، مثلا خاوند كہے ميں نے اپنى بيوى كو ايك ہزار ريال كے عوض طلاق دى، تو ہم كہيں گے يہ خلع ہے، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے:

ہر وہ جس ميں معاوضہ ہو وہ طلاق نہيں "

امام احمد كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں:

ميرے والد صاحب خلع ميں وہى رائے ركھتے جو عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى رائے تھى، يعنى يہ فسخ نكاح ہے چاہے كسى بھى لفظ ميں ہو، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا.

اس پر ايك اہم مسئلہ مرتب ہوتا ہے:

اگر كوئى انسان اپنى بيوى كو دو بار علحيدہ عليحدہ طلاق دے اور پھر طلاق كے الفاظ كے ساتھ خلع واقع ہو جائے تو طلاق كے الفاظ سے خلع كو طلاق شمار كرنے والوں كے ہاں يہ عورت تين طلاق والى يعنى بائنہ ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے سے نكاح نہيں كر ليتى.

ليكن جو علماء خلع كو فسخ نكاح شمار كرتے ہيں چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہوا ہو تو يہ عورت اس كے ليے نئے نكاح كے ساتھ حلال ہوگى حتى كہ عدت ميں بھى نكاح كر سكتى ہے، اور راجح بھى يہى ہے.

ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم خلع كرنے والوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ يہ نہ كہيں كہ ميں نے اپنى بيوى كو اتنى رقم كے عوض طلاق دى، بلكہ وہ كہيں ميں نے اپنى بيوى سے اتنى رقم كے عوض خلع كيا؛ كيونكہ ہمارے ہاں اكثر قاضى اور ميرے خيال ميں ہمارے علاوہ بھى يہى رائے ركھتے ہيں كہ يہ خلع اگر طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو تو يہ طلاق ہوگى.

تو اس طرح عورت كو نقصان اور ضرر ہوگا، اگر اسے آخرى طلاق تھى وہ بائن ہو جائيگى، اور اگر آخرى نہ تھى تو اسے طلاق شمار كر ليا جائيگا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 450 ).

دوم:

جب عورت كا ولى ( اس كا والد ) اس كى شادى كرنے سے انكار كرے اور خاوند بھى اس عورت كا كفو ہو يعنى مناسب رشتہ ہو اور وہ عورت اس خاوند سے راضى ہو تو وہ ولى اسے نكاح سے روكنے والا شمار ہوگا، اس طرح اس سے ولايت منتقل ہو كر بعد والے ولى كو مل جائيگى.

اور عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنا معاملہ قاضى كے پاس لے جائے تا كہ قاضى اس كے ولى كو يا تو اس كى شادى كرنے كا حكم دے، يا پھر اگر ولى اس كى شادى نہيں كرتے تو قاضى اس كى شادى كر دے.

يہ مسئلہ پہلے تو اہل خير اور اصلاح پسند افراد حل كريں وہ اس طرح كہ جب خاوند ديندار اور حسن اخلاق كا مالك ہے تو وہ عورت كے والد كو راضى كرنے كى كوشش كريں.

اسى طرح كى حالت ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان نازل ہوا تھا:

تو انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے سے نہ روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوں البقرۃ ( 232 ).

معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے اپنى بہن كى ايك شخص سے شادى كر دى تو اس شخص نے ميرى بہن كو طلاق دے دى، اور جب اس كى عدت گزر گئى تو وہ اس سے دوبارہ شادى كرنے كے ليے آيا تو ميں نے اسے كہا:

ميں نے اس سے تيرى شادى كى، اور تيرا بستر بنايا اور تيرى عزت و احترام كيا تو نے اسے طلاق دے دى اور اب اس كا دوبارہ رشتہ طلب كر رہے ہو! اللہ كى قسم وہ تيرے پاس دوبارہ كبھى نہيں لوٹ سكتى، اور اس شخص ميں كوئى حرج بھى نہ تھا اور عورت بھى اس كے پا سواپس جانا چاہتى تھى.

تو اللہ عزوجل نے يہ آيت نازل فرما دى:

تو انہيں ان كے خاوندوں سے نكاح كرنے سے نہ روكو جب كہ وہ آپس ميں دستور كے مطابق رضامند ہوں

تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اب ميں كرتا ہوں، تو انہوں نے اپنى بہن كى شادى اس سے كر دى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5130 ).

چنانچہ اس عورت كے والد كو ہمارى يہى نصيحت ہے كہ وہ اس عورت كا اپنے خاوند سے نكاح كرنے پر راضى ہو جائے اور اس ميں ركاوٹ نہ بنے تا كہ اللہ كے حرام كردہ فعل كا ارتكاب نہ كر بيٹھے.

واللہ اعلم .

طلاق عدت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔