"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اسى ويب سائٹ ميں عقيقہ كا حكم بيان ہو چكا ہے كہ استطاعت ركھنے والے كے ليے عقيقہ كرنا سنت مؤكدہ ہے، جيسا كہ سوال نمبر ( 20018 ) كے جواب ميں بيان ہوا ہے كہ بچے كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرا ذبح كرنا سنت ہے؛ اس كى دليل ترمذى اور نسائى شريف كى درج ذيل حديث ہے:
ام كرز رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عقيقہ كے متعلق دريافت كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بچے كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك چاہے بكرى ہو يا بكرا تمہيں كوئى نقصان نہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1516 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 4217 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اراوء الغليل ( 4 / 391 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بچے كى جانب سے كفائت كردہ دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ذبح كرنے كا حكم ديا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1513 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ احاديث جمہور علماء كى دليل ہيں كہ بچے اور بچى ميں فرق ہے، اور مالك رحمہ اللہ انہيں برابر كہتے ہيں كہ بچہ ہو يا بچى ايك ہى بكرى ذبح كى جائيگى، ان كى دليل يہ ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حسن اور حسين رضى اللہ تعالى عنہما كى جانب سے ايك ايك مينڈھا ذبح كيا "
اسے ابو داود نے روايت كيا ہے، اس ميں امام مالك كى حجت نہيں، كيونكہ ابو الشيخ نے دوسرے طريق سے عكرمہ عن ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے " دو مينڈھے دو ميڈھے " كے الفاظ روايت كيے ہيں، اور عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے بھى اس طرح كى روايت ہے.
اگر فرض كر ليا جائے كہ ابو داود كى روايت ثابت ہے تو حديث ميں يہ دليل نہيں جو باقى احاديث كو رد كريں جن ميں بچے كى جانب سے دو بكروں كا ذكر ہے، بلكہ اس سے انتہائى يہى ہے كہ يہ ايك پر كفائت كرنے كے جواز پر دلالت كرتى ہے، اور يہ اسى طرح ہے، كيونكہ تعداد شرط نہيں بلكہ مستحب ہے " انتہى.
ماخوذ از: فتح البارى.
اور شيرازى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سنت يہى ہے كہ بچے كى جانب سے دو اور بچى كى جانب سے ايك بكرى ذبح كى جائے، اور اگر ہر ايك كى جانب سے ايك بكرى ذبح كى جائے تو بھى جائز ہے " انتہى مختصرا.
ديكھيں: المذھب ( 8 / 433 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر انسان صرف ايك ہى بكرى پائے تو يہ كفائت كر جائيگى اور اس سے مقصود حاصل ہو جائيگا، ليكن اگر اللہ تعالى نے اسے مالدار اور غنى كيا ہے تو پھر دو افضل ہيں " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 492 ).
اس بنا پر انسان كے ليے اپنے بچے كے ليے ايك بكرے كا عقيقہ كرنا جائز ہے، اور يہ كفائت كر جائيگا، اگرچہ افضل يہى ہے كہ اگر استطاعت ہو تو دو بكرے ذبح كرے.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 60252 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .