"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
جب بيوى ان صفات اور اخلاق كى مالك ہے جو آپ نے بيان كى ہيں كہ وہ نفرت كرتى اور طلاق لينے كى رغبت ركھتى ہے، اور اختلاف كى بھى پرواہ نہيں كرتى، تو پھر آپ كے ليے اس كے ساتھ رہنے ميں كوئى خير و بھلائى نہيں، بلكہ ہر عقل و دانش ركھنے والا، اور جو شخص نكاح كے مقاصد كى پہچان ركھتا ہے اور لوگوں كى عادات سے واقف ہے وہ آپ كو يہى كہے گا:
يہ شادى كرنا بالكل صحيح نہيں؛ چاہے اس كے ليے كتنا بھى نقصان اٹھانا پڑے جس كا آپ كو اب خدشہ ہے، كيونكہ يہ نقصان تو اس نقصان سے ہزار درجہ كم ہے جو مشكلات اور نقصان ميں متوقع ہے.
اور اگر وہ عورت نماز ہى ادا نہيں كرتى اور ترك نماز پر اصرار كرتى ہے تو اس سے عليحدگى واجب ہو جاتى ہے، اور اس كے ساتھ رہنا حرام قرار پاتا ہے، كيونكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق تارك نماز كافر ہے، اور كافرہ عورت كا كسى مسلمان شخص كى زوجيت ميں باقى رہنا حلال نہيں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم كافر عورتوں كى ناموس اپنے قبضہ ميں نہ ركھو الممتحنۃ ( 10 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 5208 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اگر عقد نكاح كے وقت وہ تارك نماز تھى تو عقد نكاح ہى صحيح نہيں، اور فسخ نكاح لازم ہو گا، اور جو مہر آپ نے ادا كيا ہے وہ آپ كو واپس لينے كا حق ہے.
دوم:
اس طرح كى حالت ميں جس ميں خاوند اپنى بيوى كو طلاق نہ دينا چاہتا ہو، اور بيوى طلاق چاہتى ہو تو وہ خلع لے سكتى ہے، اس ليے وہ خلع كے عوض خاوند كو پورا مہر يا پھر اس سے بھى زيادہ واپس كريگى؛ كيونكہ صحيح بخارى حديث مروى ہے:
ثابت بن قيس رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر عرض كرنے لگى:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نہ تو ميں ثابت بن قيس كے دين ميں عيب لگاتى ہوں اور نہ ہى اخلاق ميں ليكن ميں اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا تم اس كا باغ واپس كرتى ہو ؟
وہ كہنے لگى: جى ہاں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم.
چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اے ثابت تم باغ قبول كر كے اسے ايك طلاق دے دو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4868 )
اور ايك روايت ميں ہے:
" ميں ثابت كے دين اور اخلاق ميں عيب نہيں لگاتى، ليكن اسلام ميں كفر كو ناپسند كرتى ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4971 ).
يعنى وہ اعمال ناپسند كرتى ہوں جو اسلامى احكام كے منافى ہيں يعنى خاوند سے بغض اور اس كى نافرمانى اور اس كے حقوق كى ادائيگى نہ كرنا... وغيرہ
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 400 ).
علماء كرام كا اجماع ہے كہ اگر كوئى شرعى ضرورت ہو تو خلع حاصل كرنا جائز ہے، اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 1859 ).
آپ تو حق ہے آپ بيوى كے ساتھ خلع كر ليں، اور آپ اس ميں شرط ركھيں كہ اس كے مقابلہ ميں وہ سارا مہر چھوڑے تو پھر خلع ديا جا سكتا ہے.
اس طرح كى حالت ميں ہمارى رائے تو يہى ہے كہ آپ كچھ صلح پسند افراد كو درميان ميں ڈاليں جو اس كے گھر والوں كے پسنديدہ ہوں كہ وہ عدالت جائے بغير اس معاملہ كو ختم كرائيں يا پھر حقوق سے دستبردار ہونے اور ظلم ختم كرانے كى كوشش كرائيں.
ليكن اگر آپ كے ملك ميں قانون ايسا ہے كہ ترك نماز كى بنا پر فسخ نكاح نہيں كيا جاتا، يا پھر خلع كى حالت ميں مہر واپس لينا ممكن نہ ہو، اور اصلاح پسند افراد كا حصول بھى مشكل ہو جو آپ كے اس معاملہ كو حل كرائيں تو اس كے باوجود ہم آپ كو يہى مشورہ ديتے ہيں كہ آپ اس عورت سے عليحدہ ہو جائيں.
كيونكہ آج كى عليحدگى كل عليحدہ ہونے سے بہتر ہے، جو عورت ابھى آپ كى بات نہيں مانتى اور سركشى اختيار كيے ہوئے ہے اس عورت سے آپ كونسى سعادت كى اميد ركھتے ہيں، اور پھر وہ مستقبل ميں بھى اپنى اسى سركشى كا اعلان كر رہى ہے راحت و سكون اور سعادت و خوشبختى و اطمنان چھننے سے مالى خسارہ كا موازنہ نہيں كيا جاتا، اميد ہے اللہ تعالى آپ كو اس كا نعم البدل عطا كرے، اور نيك و صالح بيوى عطا فرما دے.
انسان كو چاہيے كہ وہ اچھى چيز اختيار كرے، اور ہر چيز سے قبل دين كو ديكھے كہ وہ عورت دين والى ہے يا نہيں، جو عورت نماز ہى ادا نہيں كرتى يا پھر اختلاط والى جگہ ملازمت كرتى ہے اس كے ساتھ حرام كام ترك كرنے اور نماز پابندى سے ادا كرنے سے قبل نكاح نہيں كرنا چاہيے.
يہى نہيں بلكہ ايسى لڑكى تلاش كرنى چاہيے جو نيك و صالح اور راہ مستقيم پر چلنے والى ہو، اور خير و بھلائى كے كام سرانجام دينے كى حرص ركھے، اور اس كى گواہى بھى ديتى ہو.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى حالت كو سدھارے اور آپ كے معاملہ كو آسان كرے.
واللہ اعلم .