"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر كوئى شخص ہر سال ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى رات قرآن ختم كرے اور فقراء و مساكين كو كھانا كھلائے تو كيا يہ جائز ہے ؟
الحمد للہ.
عيد الفطر اور عيد الاضحى اور ايام تشريق ( يعنى ذوالجہ كى گيارہ بارہ اور تيرہ اور چودہ تاريخ ) ميں لوگوں كا ايك دوسرے كى دعوت كرنا اور كھانے كے ليے جمع ہونا دين اسلام كے شعار ميں شامل ہے جسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسلمانوں كے ليے مشروع كيا ہے.
اور رمضان المبارك ميں فقراء و مساكين كو كھانا كھلا كر تعاون كرنا اسلام كى سنت ميں شامل ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كسى روزہ دار كا روزہ افطار كروايا تو اسے بھى اس جتنا ہى اجروثواب حاصل ہو گا "
اور پھر فقير قراء كرام كا ہر وقت ايسى اشياء سے تعاون كرنا جو ان كے ليے قرآن مجيد ميں ممد و معاون ثابت ہو صالح اور نيك عمل ہے، جو كوئى بھى اس ميں ان كى معاونت كرتا ہے وہ ان كے ساتھ اجر ميں برابر كا شريك ہے.
ليكن شرعى تہوار كے علاوہ كوئى اور تہوار بنا لينا مثلا ربيع الاول كى كوئى رات جس ميں كہا جاتا ہے كہ يہ ميلاد كى رات ہے، يا پھر رجب كى كوئى رات، يا ذوالحجہ كى آٹھارہ تاريخ كى رات، يا رجب كا پہلا جمعہ يا آٹھ شوال جسے جاہل قسم كے لوگ نيكوں كى عيد كا نام ديتے ہيں، يہ سب بدعات ميں شامل ہيں جسے نہ تو سلف مستحب سمجھتے تھے اور نہ ہى انہوں نے ايسا كيا ہے، واللہ تعالى اعلم " انتہى .
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن تيميہ ( 25 / 298 ).