"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میرے والد فوت ہوگئے ہیں، اور اپنے بھائیوں کیلئے میں ہی سربراہ ہوں، ہم اس وقت کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں، اور مالک مکان نے انہیں نکالنے کا فیصلہ کر لیا ہے، کیونکہ اسے اپنا مکان چاہئے، تو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بھائیوں کیلئے ایک غیر اسلامی بینک سے قسطوں پر مکان خرید لوں، ہمارے ہاں اسلامی بینک نہیں پائے جاتے، تو کیا مکان کی خریداری سود اور حرام ہوگی؟
الحمد للہ.
پہلی بات:
بینک سے مکان کی خریداری کی دو صورتیں ہیں:
پہلی یہ ہے کہ: بینک صرف پیسوں کا بند وبست کرے، یعنی کسٹمر کو سامان کی قیمت دے دےیا خود ہی کسٹمر کی طرف سے ادائیگی کردے، جس کے عوض میں ادا شدہ رقم بھی واپس لے اور اس پر منافع بھی وصول کرے، مثال کے طور پرسامان ایک ہزار کا ہو، اور بینک کو ایک ہزار دو سو واپس کرنے پڑیں تو یہ صورت حرام ہے؛ کیونکہ اسکی بنیاد سودی قرضے پر ہے۔
دوسری یہ ہے کہ: بینک حقیقی طور پر کوئی سامان خریدے، پھر بعد میں اسے کسٹمر کو زیادہ قیمت پر قسطوں میں بیچ دے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی کو " خریداری کا حکم کرنے والے کیساتھ بیع مرابحہ " کہا جاتا ہے، اس صورت میں بینک سامان کی خریداری سے قبل کسٹمر سے عقد نہیں کرسکتا، کیونکہ جو چیز ابھی ملکیت میں نہ ہو اسکی خرید و فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اور بینک کیلئے جائز ہے کہ وہ مستقبل میں سامان کی ملکیت حاصل کرنے پر کسٹمر سے سامان کی خریداری کا وعدہ لے سکتا ہے، لیکن یہ وعدہ لازمی نہیں ہوگا۔
مذکورہ بالا بیان کے بعد؛ اگر بینک مکان خرید کر پھر اسے قسطوں میں فروخت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر بینک خریداری نہ کرے، بلکہ اسکی قیمت آپکو دے دے، یا آپکی طرف سے قیمت ادا کردے ، اور اس رقم کی واپسی قسط وار زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے، اور سود کے بارے میں بہت سخت وعید آئی ہے۔
دوسری بات:
آپ نے بھائیوں کیلئے رہائش کی ضرورت کا ذکر کیا ہے، اس سے سود لینا جائز نہیں ہو جائے گا، کیونکہ اس ضرورت کو کرائے پر مکان لیکر پورا کیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم .