"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
بيويوں ميں عدل و انصاف پر عمل كرتے ہوئے اصل تو يہى ہے كہ ان دونوں كے ليے بھى بارى تقسيم كى جائے.
ليكن اكثر ممالك اور علاقوں ميں يہ عادت ہے جب عورت بچہ جنتى ہے تو وہ چاليس يوم تك يا اس سے كم ايما اپنے ميكے ماں باپ كے پاس جا كر رہتى ہے تا كہ اس كى والدہ لڑكى كى ديكھ بھال اور خدمت كرے، اور بعض اوقات والدہ بيٹى كى خدمت كے ليے بيٹى كے گھر آ جاتى ہے، تو دونوں حالتوں ميں اس كے ليے بارى كى تقسيم كرنا واجب نہيں، اور تقسيم ميں وہ اپنى بارى ساقط كرنے پر رضامند ہوتى ہے.
شيخ عبد الرحمن بن ناصر السعدى رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا حيض اور نفاس والى عورت كے ليے بھى بارى كى تقسيم كرنا واجب ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" امام احمد رحمہ اللہ كا مشہور مذہب تو يہى ہے كہ ہر ايك كے ليے بارى كى تقسيم كرنى واجب ہے، كيونكہ سب بيوياں ہيں، ليكن صحيح يہى ہے اور عمل بھى اس پر ہے كہ حيض والى عورت كے ليے بارى تقسيم ہو گى، ليكن نفاس والى عورت كے ليے بارى كى تقسيم نہيں كيونكہ يہ عادت بن چكى ہے، اور وہ اپنى بارى چھوڑنے پر راضى ہوتى ہے.
بلكہ غالب طور پر جب عورت نفاس كى حالت ميں ہو تو وہ اپنے خاوند سے اپنى بارى كى رغبت ہى نہيں ركھتى مذہب كى وجہ يہى ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 693 ).
واللہ اعلم .