"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر كوئى شخص كچھ مہر شادى كے وقت اور باقى موت يا عليحدگى كى صورت ميں مؤجل مہر پر شادى كرے تو كيا يہ جائز ہے، كيونكہ ان كى عادت ہے كہ باقى مہر موت يا عليحدگى كے وقت ہى ليا جاتا ہے ؟
الحمد للہ.
يہ صحيح ہے، چاہے وہ يہ الفاظ بوليں يا پھر ان ميں يہ عادت معروف ہو.
اس بنا پر عورت اور اس كے خاندان والوں كے ليے مہر مؤجل وقت سے قبل طلب كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كو حق حاصل ہے كہ وہ مہر مؤجل لينے سے قبل اپنے آپ كو خاوند سے روك لے، كيونكہ عقد نكاح كے وقت وہ اس پر متفق ہوئے تھے كہ مذكورہ مہر بعد ميں ديا جائيگا، اور اگر بيوى اپنے ميكے چلى جائے، اور ميكے والے كہيں كہ ہم اس وقت تك اسے خاوند كے سپرد نہيں كرينگے جب تك وہ مہر نہ دے، تو انہيں ايسا كرنے كا حق حاصل نہيں، اور ان كا بيوى كو خاوند كے سپرد نہ كرنا صحيح نہيں.
اور اگر وہ بيوى بھى اپنے آپ كو اس حجت اور وجہ سے خاوند كے سپرد نہيں كرتى تو خاوند كے ذمہ اس كا نان و نفقہ نہيں ہوگا، كيونكہ وہ نافرمان ہے، اور بغير كسى حق كے نافرمانى كرنے والى بيوى كو نان و نفقہ نہيں ديا جائيگا " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد الرحمن بن ناصر السعدى رحمہ اللہ.