"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
آپ كا يہ كہنا كہ: " ايك عورت كو ( بغير عقد نكاح ) عرفى طلاق ہوئى " لگتا ہے كہ آپ اس سے مراد لے رہے ہيں كہ اس كى طلاق سركارى اوراق ميں رسمى طور پر رجسٹر نہيں ہوئى، يہ بات ياد رہے كہ طلاق رجسٹر نہ ہونے سے حكم پر كوئى اثر نہيں پڑتا، كيونكہ طلاق واقع ہونے كى شروط ميں طلاق كا رسمى طور پر رجسٹر ہونا شامل نہيں.
دوم:
جب بيوى كو طلاق رجعى دى جائے اور اس كى عدت ختم ہو جائے اور پھر اس كا خاوند فوت ہو جائے تو اس كے ليے بيوہ ہونے كى عدت بسر كرنا لازم نہيں؛ اور نہ ہى يہ عورت وارث بن سكتى ہے؛ كيونكہ طلاق كى عدت ختم ہونے كى وجہ سے وہ خاوند سے بائن ہو چكى ہے.
سوم:
جب بيوى كو طلاق رجعى ہو جائے اور طلاق كى عدت كے دوران اس كا خاوند فوت ہو جائے تو يہ عورت اس كى وارث بنےگى، اور اس كى عدت بيوہ كى عدت ميں تبديل ہو جائيگى، اس طرح وہ خاوند كى وفات كے دن سے چار ماہ دس دن بيوہ كى عدت بسر كريگى؛ كيونكہ طلاق رجعى والى عورت عدت ختم ہونے تك اس شخص كى بيوى تھى.
چہارم:
جب بيوى كو طلاق بائن ہو جائے مثلا شرعى طريقہ سے تين طلاق ہو چكى اور دوران عدت يا پھر عدت ختم ہونے كے بعد اسے طلاق دينے والا خاوند فوت ہو جائے نہ تو وہ بيوہ كى عدت گزارے گى اور نہ ہى وہ اس كى وارث بنےگى، ليكن اگر خاوند نے اسے مرض الموت ميں طلاق دى ہو اور اس پر الزام ہو كہ اس نے بيوى كو وراثت سے محروم كرنے كے ليے طلاق دى ہے، جيسا كہ اس كى تفصيل آگے بيان ہو گى.
طلاق يافتہ عورت كے وارث بننے اور اس كے خاوند كے فوت ہونے كى صورت ميں بيوہ كى وفات كے متعلق اہل علم كى كلام كا ماحاصل يہى ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب رجعى طلاق والى عورت كا دوران عدت خاوند فوت ہو جائے تو وہ بغير كسى اختلاف كے نئے سرے سے بيوہ كى عدت چار ماہ دس دن گزارےگى.
اور ابن منذر كا قول ہے: جن اہل علم سے ہم نے علم حاصل كيا ہے وہ سب اس پر متفق ہيں، كيونكہ رجعى طلاق والى عورت بيوى ہے اسے طلاق بھى ہوگى اور اسے وراثت بھى حاصل ہو گى اس ليے وہ غير مطلق كى طرح بيوہ كى عدت بھى گزارےگى.
اور اگر طلاق بائن والى عورت كا دوران عدت خاوند فوت ہو جائے تو وہ طلاق كى عدت ہى پورى كريگى ( يعنى بيوہ كى عدت نہيں گزارےگى ) ليكن اگر خاوند نے اپنى بيوى كو مرض الموت ميں طلاق دى ہو تو بيوى دونوں عدتوں ميں لمبى عدت گزارےگى، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے.
اور امام ثورى اور ابو حنيفہ اور محمد بن حسن رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے، امام مالك اور شافعى اور ابو عبيد اور ابو ثور اور ابن منذر رحمہم اللہ كہتے ہيں: وہ طلاق كى عدت ہى گزارے گى؛ كيونكہ جب خاوند فوت ہوا تو وہ اس كى بيوى نہيں تھى؛ ليكن وہ نكاح سے بائن ہو چكى ہے تو وہ منكوحہ نہيں رہى...
اور اگر طلاق دينے والا مريض اس عورت كى حيض يا مہينہ يا وضع حمل كے اعتبار سے عدت ختم ہونے كے بعد فوت ہوا، يا اس كى طلاق دخول و رخصتى سے قبل تھى تو وہ بيوہ كى عدت نہيں گزارے گى ....
ليكن اگر اسے خاوند نے صحت و تندرستى كى حالت ميں طلاق بائن دى اور خاوند فوت ہو گيا تو وہ بھى طلاق كى عدت پورى كريگى، اور بيوہ كى وفات نہيں بسر كريگى، امام مالك اور شافعى اور ابو عبيد ابو ثور اور ابن منذر كا يہى قول ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 8 / 94 ).
مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 10 / 291 ) اور ( 29 / 325 ) كا بھى مطالعہ كريں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا وہ مطلقہ عورت جس كا خاوند دوران عدت يا عدت كے بعد اچانك فوت ہو جائے تو اپنے خاوند كى وارث بنے گى يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر طلاق رجعى ہے تو وہ عورت بيوى كے حكم ميں ہے اور وہ طلاق رجعى كى عدت سے منتقل ہو كر بيوہ كى عدت گزارےگى.
طلاق رجعى يہ ہے كہ دخول اور رخصتى كے بعد عورت كو بغير معاوضہ كے پہلى يا دوسرى بار طلاق دى گئى ہو، جب اس عورت كا خاوند فوت ہو جائے تو وہ اپنے خاوند كى وارث ہو گى كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ عورتيں جنہيں طلاق دى گئى ہے اپنے آپ كو تين حيض تك انتظار ميں ركھيں، اور ان كے ليے حلال نہيں كہ جو اللہ نے ان كے رحموں ميں پيدا كيا ہے اسے چھپائيں، اگر وہ اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتى ہيں، اور ان كے خاوند اس مدت ميں انہيں واپس لينے كے زيادہ حقدار ہيں، اگر وہ ( معاملہ ) درست كرنے كا ارادہ ركھتے ہوں، اور معروف كے مطابق عورتوں كے ليے بھى اسى طرح حقوق ہيں جيسے ان كے اوپر ہيں البقرۃ ( 228 ).
اور اللہ تبارك و تعالى كا فرمان ہے:
اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كے ليے طلاق دو اور عدت كو شمار كرو، اور اللہ كا تقوى اختيار كرو جو تمہارا پروردگار ہے، انہيں ان كے گھروں سے مت نكالو، اور نہ ہى وہ خود نكليں مگر يہ كہ وہ واضح طور پر كوئى فحاشى كا كام كريں، اور يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں، اور جو كوئى بھى اللہ كى حدود سے تجاوز كريگا اس نے اپنے اوپر ظلم كيا، آپ نہيں جانتے كہ ہو سكتا ہے شائد اس كے بعد اللہ تعالى كوئى نئى بات پيدا كر دے الطلاق ( 1 ).
يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق يافتہ بيوى كو دوران عدت اپنے خاوند كے گھر ميں رہنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے كہ:
آپ نہيں جانتے كہ ہو سكتا ہے شائد اس كے بعد اللہ تعالى كوئى نئى بات پيدا كر دے .
اس سے مراد خاوند كا رجوع ہے كہ ہو سكتا ہے خاوند اس سے رجوع ہى كر لے.
ليكن اگر طلاق يافتہ عورت كا خاوند اچانك فوت ہو گيا اور اسے طلاق بائن ہو چكى ہو، مثلا تيسرى طلاق تھى يا پھر خاوند نے طلاق كا معاوضہ ليا ہو، يا پھر وہ فسخ نكاح كى عدت ميں ہو طلاق كى عدت نہ ہو تو وہ عورت وارث نہيں بنے گى، اور نہ ہى وہ طلاق كى عدت سے بيوہ كى عدت ميں منتقل ہوگى.
ليكن ايك حالت ميں طلاق بائن والى عورت بھى وارث بن سكتى ہے مثلا اگر اس كے خاوند نے مرض الموت ميں طلاق دى اور اس كے خاوند پر تہمت ہو كہ اس نے بيوى كو وراثت سے محروم كرنے كے ليے طلاق دى ہے، تو اس حالت ميں وہ اس كى وارث بنےگى اور وراثت حاصل كريگى، چاہے عدت بھى گزر چكى ہو، ليكن شرط يہ ہے كہ اس نے آگے كسى دوسرے شخص سے شادى نہ كى ہو، اور اگر شادى كر چكى ہو تو پھر وارث نہيں بن سكتى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 53 ).
اوپر كى سطور ميں ہم نے جو تفاصيل بيان كى ہے اس سے آپ كے سوال كا جواب بھى معلوم ہو جاتا ہے.
اور ايسى وراثت حاصل كرنے كى صورت ميں جس كى وہ مستحق نہ تھى اس پر لازم ہے كہ وہ اس كے ورثاء اور مستحقين كو واپس كرے، اسے اپنے پاس ركھنا حلال نہيں.
واللہ اعلم .