"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے پردہ كے متعلق كئى ايك فتاوى كا مطالعہ كيا ہے علماء كرام كى آراء ميں راجح يہى ہے كہ پردہ كرنا واجب ہے، ليكن ميرى بيوى كہتى ہے كہ ايسا كرنا مستحب ہے يا پھر سنت ہے، وہ دوسرے علماء كرام كى رائے پر عمل كرتى ہے جو اسے واجب نہيں سمجھتے.
اسى ليے كہتى ہے كہ ان شاء اللہ ہو سكتا ہے وہ آئندہ مستقبل ميں پردہ كرنا شروع كر دے، الحمد وہ دين كا التزام كرنے والى عورت ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا ميں اب اسے پردہ كرنے پر مجبور كر سكتا ہوں، يا كہ مجھے اسے آزادى دينا چاہيے كہ جو چاہے اختيار كرے، اور ميں اسے پردہ كرنے كى نصيحت جارى ركھوں ؟
الحمد للہ.
علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق عورت كو اجنبى مردوں سے اپنا چہرہ چپھانا واجب ہے، پردہ كے وجوب كے دلائل سوال نمبر ( 11774 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور پھر جو فقھاء يہ سمجھتے ہيں كہ عورت كا چہرہ ستر ميں شامل نہيں جس كا چھپانا واجب ہو ان فقھاء كى اكثريت بھى كہتى ہے كہ كثرت فساد كے وقت فتنہ كے خوف سے چہرہ چھپانا واجب ہے.
اور پھر خاوند كو حكم ہے كہ وہ اپنے اہل و عيال كى حفاظت كرے اور انہيں حرام سے بچائے، اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كو چہرہ چھپانے پر دلائل كے ساتھ مطمئن كرے، اور اگر وہ انكار كرتى ہے تو پھر وہ اس پر پردہ كرنے كو لازم كر دے اور بيوى كو اس معاملہ ميں خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہوگى.
كيونكہ وہ بيوى كو ايسى چيز كا حكم دے رہا ہے جو بيوى كے ہاں مباح ہے، اور خاوند كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اپنى حرمت و عصمت كى حفاظت كرے كہ اس كى بيوى كو كوئى اور نہ ديكھے.
سوال نمبر ( 97125 ) كے جواب ميں ہم يہ بيان كر چكے ہيں كہ اختلافى مسائل ميں خاوند اور بيوى آپس ميں كس طرح مسئلہ كو حل كريں، اس ميں يہ بيان ہوا ہے كہ:
" ہر وہ چيز جو بيوى كے ليے مباح ہے خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ اس سے بيوى كو منع كرے، يا اسے اپنے قول سے لازم قرار دے اگر وہ اسے حرام سمجھتا ہو، اور اگر اس كو سرانجام دينے ميں خاوند كى اہانت ہوتى ہو يا پھر نقص پيدا ہوتا ہو تو پھر تو اس كے ليے اسے روكنا يقينى ہے.
اس كى مثال چہرے كا چھپانا ہے، يہ مسئلہ اختلافى ہے اور پھر اس مسئلہ ميں كوئى ايسا قول نہيں جس ميں يہ كہا گيا ہو كہ چہرہ چھپانا يعنى چہرے كا پردہ كرنا حرام ہے، اگر بيوى يہ رائے ركھے كہ وہ چہرہ ننگا ركھ سكتى ہے تو خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ بيوى كو اجنبى مردوں كے سامنے چہرہ ننگا كرنے سے منع كرے.
اور خاوند كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے قول اور راجح مسئلہ كے مطابق يعنى چہرے كا پردہ واجب ہے كيونكہ يہى راجح ہے كا التزام كرنے كا حكم ديتے ہوئے چہرے كا پردہ كرنے كا حكم دے، اور بيوى كو اس كى مخالفت كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں، بلكہ اگر وہ اس ميں اپنے خاوند كى اطاعت ميں اللہ كى اطاعت كى نيت ركھتى ہے تو وہ عند اللہ ماجور بھى ہوگى، اور پھر وہ اس فعل كو سرانجام دے گى جس ميں زيادہ ستر ہے.
پھر ہم يہ بھى كہتے ہيں كہ:
عورت كے ليے كيا چيز مانع ہے كہ وہ ديكھنے والوں كى نظروں سے اپنے چہرے اور اپنے آپ كو چھپائے؟
يہ تو سب كو معلوم ہے كہ چہرہ ہى ايسى چيز ہے جو سب محاسن و خوبصورتى كو جمع كرنے والى چيز ہے، اور فتنہ و خرابى كا محل ہے، اور سب سے پہلے نظر بھى چہرے پر ہى جاتى ہے ؟
چاہے بيوى چہرے كا پردہ كرنا واجب سمجھتى ہے يا واجب تو پھر ايسے مستحب كام ميں كيوں كوتاہى كرتى ہے جس كو سرانجام دينے سے اللہ رب العالمين كا قرب حاصل ہوتا ہے، اور پھر اس سے اس كا خاوند بھى راضى ہوتا ہو، اور يہ كام اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ازواج مطہرات اور صحابہ كرام كى پاكباز بيويوں كى صفات جيسى بنا دے.
كيا ہر مومنہ عورت كو اس ستر و پردہ كى كوشش نہيں كرنى چاہيے كہ وہ جتنى جلدى ہو سكے اس پر عمل كرے، اور پھر اس بيوى كو اللہ كا شكر ادا كرنا چاہيے كہ اس نے اسے ايسا خاوند عطا كيا جو اسے اس كا حكم دے رہا ہے اور اس نيك كام كى ترغيب دلاتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب كو توفيق عطا فرمائے، اور ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب كرے جس سے اللہ راضى ہوتا ہے، اور جنہيں اللہ پسند فرماتا ہے.
واللہ اعلم .