اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

مسلمانوں كے فقر كا سبب كثرت نسل ہے جيسا قول كہنے والے كا حكم

20-10-2009

سوال 119955

اگر كوئى شخص يہ بات كہے كہ:
" مسلمانوں كے فقر اور كمزورى اور اس دور ميں ان كے پيچھے رہنے كا سبب كثرت نسل ہے، اس ليے مسلمان ترقى نہيں كر سكے، ايسا اعتقاد ركھنے والے شخص كا شريعت ميں كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارى رائے تو يہى ہے كہ اس كا يہ قول اور رائے غلط ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى روزى ميں فراوانى كرنے والا ہے وہ جسے چاہے زيادہ رزق ديتا ہے اور جسے چاہے كم ديتاہے، روزى ميں كمى كا سبب اور علت كثرت نسل اور افراد نہيں، كيونكہ زمين ميں جو بھى چلنے پھرنے اور رينگنے والى چيز ہے ا سكا رزق اللہ كے ذمہ ہے، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى اپنى حكمت سے جسےچاہتا ہے اسے عطا كرتاہے، اور جسے چاہتا ہے نہيں ديتا.

ايسا عقيدہ ركھنے والے كو ميرى نصيحت ہے كہ وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس باطل اعتقاد كو چھوڑ دے، اور يہ علم ميں ركھے كہ دنيا جتنى بھى بڑھ جائے اور اگر اللہ چاہے تو ان كے ليے روزى كھول دے، ليكن اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب ميں فرمايا ہے:

اور اگر اللہ تعالى اپنے بندوں كے ليے روزى كشادہ كر دے تو وہ زمين ميں فساد كرنے لگيں، ليكن اللہ تعالى جتنى چاہتا ہے اسى كےمطابق روزى اتارتا ہے، يقينا وہ اپنے بندوں كى خبر ركھنے والا اور ديكھنے والا ہے الشورى ( 27 ).

فضيلۃ الشيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ.

ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام صفحہ ( 1084 ).

بلاشك نسل كى تحديد يا كم كرنا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے متصادم ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ايسى عورتوں سے شادى كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو، اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے ساتھ امتوں پر فخر كرونگا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1784 ) ميں اسے صحيح كہا ہے.

اس ليے جو نسل ميں كمى كرنے كى كوشش كرتا اور اس كى دعوت ديتا ہے وہ چاہتا ہے كہ روز قيامت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے پيروكاروں كى كثرت ہونے كے ساتھ باقى انبياء پر فخر نہ كريں.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے تو سارى مخلوق كى روزى كى ضمانت ليتے ہوئے فرمايا ہے:

اور زمين ميں چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہيں سب كى روزياں اللہ تعالى پر ہيں ھود ( 6 ).

چنانچہ افراد كى كثرت كے خلاف باتيں كرنا ـ چاہے يہ مانع حمل ادويات كى ترويج يا پھر حمل ساقط كرانے يا كسى اور طريقہ سے ہو ـ اور يہ اعتقاد ركھنا كہ انسانوں كى تعداد زيادہ ہونے كى بنا پر ضروريات پورى نہيں ہونگى، اور بشرى مصلحت يہى تقاضا كرتى ہے كہ انسانوں كى تعداد ميں كمى كى جائے اور نسل كم ركھى جائے.

يہ چيز تو اللہ كى ربوبيت اور مخلوق كے ليے وسعت رزق كا انكار ہے، اور يہ بالكل اسى اعتقاد كى طرح ہے جو مشرك ركھتے تھے، جو اپنى اولاد فقر و فاقہ كے ڈر سے قتل كر ديا كرتے تھے اسى كے متعلق اللہ كا فرمان ہے:

اور تم اپنى اولاد كو فقر كے ڈر سے قتل مت كرو، تمہيں اور انہيں رزق ہم ہى ديتے ہيں الانعام ( 151 ).

اور ايك مقام پر ارشاد فرمايا:

اور تم اپنى اولاد كو فقر كے ڈر سے قتل مت كرو، انہيں اور تمہيں رزق ہم ہى ديتى ہيں، يقينا ان كا قتل بہت بڑى غلطى ہے الاسراء ( 31 ).

كثرت امت اللہ كى نعمتوں ميں سے ايك نعمت ہے جس پر اللہ كا شكر ادا كرنا چاہيے، اور اللہ وحدہ لا شريك ہى كى عبادت كرنى چاہيے، اسى ليے اللہ كے نبى شعيب عليہ السلام نے اپنى قوم كو اللہ كى كچھ نعمتين ياد دلاتے ہوئے فرمايا تھا:

اور ياد كرو جب تم قليل تعداد ميں تھے تو اللہ نے تمہيں زيادہ كر ديا الاعراف ( 86 ).

اور پھر كثرت امت تو امت كى عزت اور دشمن كے خلاف مدد كا باعث بنتى ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے نبى اسرائيل كے متعلق فرمايا ہے:

پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے كر تمہارے دن پھيرے اور مال اور اولاد سے تمہارى مدد كى اور تمہيں بڑے جتھے والا بنايا بنى اسرائيل ( 6 ).

مصر كے متعلق مستقلى سرچ كے متعلق ڈاكٹر محمد سيد غلاب كہتے ہيں:

" كثرت سكان كبھى بھى بوجھ نہيں رہا، اور نہ ہى يہ اسے آئندہ صدى ميں بوجھ شمار كرنا صحيح ہو گا؛ كيونكہ يہى كثرت ہے جس نے مصر كو ہر دور ميں ترقى دى "

اور ايك دوسرى سرچ ميں ڈاكٹر مصطفى فقى مصر ميں اہم ترين اسباب و عوامل كى طرف اشارہ كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ:

" مصر ثروت بشرى كا خزانہ ہے "

اور اقتصادى امور كے ماہر استاد خورشيد احمد كہتے ہيں:

" مستقبل ميں ان ممالك كو ہى قوت و غلبہ حاصل ہو گا جن كے شہريوں كى تعداد زيادہ ہو گى، اور فى وقت ذاتہ وہ فنى علوم سے مزين ہونگے، اس ليے يورپ والوں كے ليے اپنى قيادت و سيادت كو بچانے كے ليے كوئى اور چيز نہيں بچى الا يہ كہ وہ ايشيا اور افريقى ممالك ميں نسل كم كرنے كا نعرہ بلند كريں اور اس كى ترويج كريں، اور مانع حمل ادويات استعمال كرائيں.

اسى بنا پر يورپى ممالك آج اپنے ممالك ميں كثرت نسل پر كام كر رہے كہ ان كے ممالك ميں تعداد زيادہ ہو جائے، ليكن اسى وقت وہ ايشيا اور افريقى ممالك ميں ايسے اسلوب اور ذرائع استعمال كرنے كى كوشش ميں ہيں جس سے ان ممالك كے رہائشيوں كى تعداد كم ہو سكے.

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے كہ:

استاد " اورجنسكى " جو كہ ايك امريكى مفكر ہے نے بہت سچى بات كہہ ڈالى كہ: اور مستقبل ميں قوت وطاقت اس كے پاس زيادہ ہو گى جس كے افراد كى تعداد زيادہ ہے "

اور وہ يہ بھى كہتے ہيں:

" تاريخ كا علم حاصل كرنے والے طالب علم پر يہ مخفى نہيں كہ:

ملك كے رہائشيوں كى تعداد كى سياسى طور پر جزرى اہميت ركھتى ہے، اس ليے ہر معاشرے يا عالمى طاقت نے اپنے اہتمامات تعميرى اور انشائى دور ميں افراد كى كثرت ميں كى ہے، اور اسى ليے معروف مؤرخ استاد " ويل ڈيورنٹ " كثرت سكان كو شہرى ترقى كے اہم اسباب ميں شمار كرتا ہے، اور استاد " آرنلڈ ٹوبينى " نے بھى اس كو اساسى رد قرار ديا ہے جو انسانيت كى ترقى كے خلاف ہوں.

حتى كہ بات كو غلط نہ سمجھ ليا جائے صرف اكيلا كثرت سكان ہى كسى قوم كى ترقى اور دشمن پر غلبہ كى ضامن نہيں بلكہ يہ ايك رئيسى سبب ہے، ليكن اكيلا يہى سبب نہيں، بلكہ اس كے ساتھ ساتھ قوى تعليم اور صحيح تربيت، اور معاشرے ميں امن و امان ہونا، اور خرابيوں اور فساد كے خلاف جنگ كا ہونا بھى ضرورى ہے.

ليكن اس سب سے قبل ايمان اور تقوى كا ہونا ضرورى اور اساسى چيز ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر بستيوں والے ايمان لے آئيں اور تقوى اختيار كريں تو ہم ان پر آسمان و زمين كى بركتيں كھول ديں، ليكن انہوں نے جھٹلايا تو ہم نے ان كے اعمال كى بنا پر پكڑ ليا الاعراف ( 96 ).

مسلمانوں كى كثرت تعداد كى وجہ سے دشمنان اسلام كى چيخيں اور آوازيں زيادہ بلند ہو گئى ہيں، كيونكہ مسلمانوں كى كثرت ان كے ليے خطرے كا باعث ہے.

كتاب " مشرق وسطى ميں جغرافى تبديلياں " جس كے مؤلف پروفيسر ارنن سوفر ہيں ميں لكھا ہے يہ كتاب يہودى ملك ميں پڑھائى جاتى ہے، اور خاص ادارون كے ليے يہ مرجع شمار ہوتا ہے، اس كو لكھنے والے كى رائے ہے كہ مصر ميں آبادى كى كثرت اسرائيل كے ليے بڑى پريشان كن ہے، كيونكہ وہ ايك طاقتور لشكر بنانے كى طاقت ركھتا ہے.

اور اخبار ڈيلى ٹيلى گراف ( 9 / 1 / 1988 ) كے اخبار ميں ايك كالم " متوسط حوض ميں كثرت انسانى وقتى بم " كے نام سے ايك كالم چھپا ہے، جس ميں كالم نگار نے اس قضيہ كے متعلق بحث كى ہے جس نے يورپ كى نيند حرام كر دى ہے، وہ مسئلہ يہ ہے كہ بحر ابيض متوسط كے مشرق اور جنوب ميں واقع بڑے ممالك كى آبادى كى كثرت، اور بحر ابيض كے شمال ميں واقع ممالك ميں آبادى كى كمى اس كالم ميں اقوام متحدہ نے ماحول كے متعلق پروگرام كى رپورٹ نقل كى ہے كہ:

" كہ پچاس كى دہائى ميں بحر ابيض متوسط كے دو تہائى رہائشى يورپى لوگ تھے جو جبل طارق سے ليكر بوسفور كے علاقے تك پھيلے ہوئے تھے، ليكن ( 2025 ) كے سال ميں يہ صورت حال اس كے برعكس ہو جائيگى كيونكہ بحر ابيض متوسط اگر عربى نہيں تو اسلامى ضرور بن جائيگا.

يہ كالم اس طرف اشارہ كرتا ہے كہ اس ميں كوئى شك نہيں كہ جو شخص مسلمانوں كے مابين نسل محدود كرنے، اور آبادى زيادہ نہ كرنے كى بات كرتا اور ترغيب دلاتا ہے، اور اس كے ليے كئى قسم كے نعرے بلند كرتا كہ: خاندان كو منظم كريں، اور معاشرے كى تنظيم ہونى چاہيے، اور خاندانى پلاننگ وغيرہ نعرے لگاتا ہے ہم اسے كہتے ہيں كہ جو اس كى ترغيب دلاتے ہيں وہ دشمنان اسلام كى خدمت كر رہے ہيں، اور دشمنان اسلام كى مصلحت كى خاطر كام كر رہے ہيں چاہيں وہ اس كو جانيں يا نہ جانيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نسل محدود كرنے كا قول ايسا قول ہے كہ اس ميں كوئى شك نہيں يہ چيز مسلمانوں كے دشمنوں كى جانب سے داخل كردہ ہے، جو يہ چاہتے ہيں كہ مسلمانوں كى تعداد زيادہ نہ ہو؛ كيونكہ جب مسلمان زيادہ ہو جائينگے تو كافروں كے ليے رعب كا باعث ہونگے، اور يہ مسلمان كافروں سے بےپرواہ ہو كر سب كچھ خود كرنے لگيں گے، زمين كى كاشت كرينگے، اور تجارت ميں مشغول ہونگے، اس طرح وہ اقتصادى طور پر بلند ہو جائينگے، اور باقى مصالح بھى پورے كر ليں گے اور كافروں كى انہيں ضرورت ہى نہيں رہےگى.

ليكن جب مسلمانوں كى تعداد كم ہو گى تو وہ ذليل ہو كر دوسروں كے سامنے ہاتھ پھيلاتے رہيں گے، اور ہر چيز ميں دوسروں كے محتاج رہيں گے " انتہى

ديكھيں: تفسير سورۃ البقرۃ ( 2 / 88 ).

اور آخر ميں ہم صرف اتنا كہنا چاہيں گے كہ نظام اور بڑھوتى اور قوانين كى صحيح پلاننگ كے ساتھ نسل اور آبادى كى كثرت كے محتاج ہيں ہميں اس كى ضرورت ہے، اور اس ميں ہميں جديد علوم سے استفادہ كرنا چاہيے.

مزيد فائدہ كے ليے مودودى كى كتاب حركۃ تحديد النسل ( 178 - 168 ) اور ميگزين "البيان عدد نمبر ( 11 ) ( 107 - 191 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم.

شادی کے احکام نفسیاتی اور سماجی مسائل
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔