اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

ڈسکاؤنٹ کارڈ کا حکم

05-10-2022

سوال 121759

یہاں کویت میں یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے خصوصی طور پر ریستوران، کلاتھ شاپ، اور کتاب گھر وغیرہ کے ڈسکاؤنٹ کارڈ تقسیم کیے جاتے ہیں، ان میں 5 فیصد سے لے کر 25 فیصد تک ڈسکاؤنٹ ہوتا ہے، لیکن یہ کارڈ 5 دینار کے عوض خریدے جاتے ہیں پھر مذکورہ مقدار تک ڈسکاؤنٹ ملتا ہے، کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈسکاؤنٹ کارڈ کی قیمت کمپنی کی تشہیری مہم کے اخراجات کے طور پر ہیں، تو کیا اس ڈسکاؤنٹ کارڈ کو خریدنا اور اسے استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تشہیری ، اور مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے ، یا سفر و سیاحت کی خدمات پیش کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے ، یا کچھ شاپنگ مالز کی طرف سے جاری کیے جانے والے ڈسکاؤنٹ کارڈ جن کے حاملین کو خریداری یا سروسز کے استعمال پر مخصوص مقدار میں ان کمپنیوں اور شاپنگ مالز کی جانب سے رعایت دی جاتی ہے، ان کارڈز کی دو قسمیں ہیں :

پہلی قسم: سالانہ فیس کی بنیاد پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کارڈ۔

دوسری قسم: فری ڈسکاؤنٹ کارڈ، یہ خریدار کو مزید خریداری کی ترغیب دلانے کے لیے ہوتا ہے، بسا اوقات یہ کارڈ ایسے شخص کو دیا جاتا ہے جو مخصوص رقم سے زیادہ خریداری کرتا ہے۔

پہلی قسم کے کارڈ جنہیں فیس ادا کر کے حاصل کیا جائے تو وہ حرام ہیں؛ کیونکہ ان میں متعدد شریعت مخالف امور پائے جاتے ہیں، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

1-جہالت اور دھوکا؛ کیونکہ یہ کارڈ خریدنے والا کارڈ کی مخصوص رقم تو ادا کرتا ہے، کہ اسے رعایت ملے گی، لیکن اسے اس رعایت کی حقیقت اور مقدار کا علم نہیں ہوتا، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ کارڈ استعمال ہی نہ کرے، یا ممکن ہے کہ وہ کارڈ تو استعمال کرے لیکن رعایت ادا شدہ قیمت سے کم یا زیادہ حاصل کرے، حالانکہ حدیث شریف میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جہالت والی بیع سے منع فرمایا ہے) مسلم: (1513)

2- اس معاملے میں غیر یقینی صورت حال ہے کہ یا تو نقصان ہو گا، یا فائدہ ہو گا، چنانچہ کارڈ حاصل کرنے والا شخص قیمت ادا کر کے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتا ہے کہ اگر اسے ادا شدہ قیمت سے زیادہ رعایت حاصل ہو جائے تو فائدے میں رہے گا، یا پھر حاصل ہونے والی رعایت ادا شدہ قیمت سے کم ہو گی تو اسے نقصان ہو گا، بعینہٖ یہی کیفیت جوا بازی کی ہے جو کہ شریعت میں حرام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون
ترجمہ: اے ایمان والو! یقیناً شراب، جوا، تھان، اور پانسے شیطانی عمل سے تعلق رکھنے والی پلید چیزیں ہیں، ان سے بچو تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔[المائدۃ: 90]

3- ان کارڈوں میں لوگوں کو دھوکا دہی اور دوسروں کا مال ہڑپ کرنا شامل ہے؛ کیونکہ ان میں سے اکثر ڈسکاؤنٹ آفریں حقیقی نہیں بلکہ صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہوتی ہیں۔

کیونکہ اس قسم کے ڈسکاؤنٹ کارڈ پیش کرنے والے لوگ عام طور پر پہلے قیمت بڑھا دیتے ہیں اور پھر حاملین کارڈ کو یہ باور کراتے ہیں کہ ان کے لیے خصوصی پیکج پیش کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ ڈسکاؤنٹ اسی قیمت میں سے ہوتا ہے جو انہوں نے اضافہ کی ہوتی ہے۔

4- اس طرح کے ڈسکاؤنٹ کارڈ عام طور پر لڑائی جھگڑے کا باعث بنتے ہیں؛ کیونکہ کارڈ جاری کرنے والی اتھارٹی کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ متعلقہ افراد کو متفقہ ڈسکاؤنٹ دینے پر مجبور کریں، جس کی بنا پر لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔

اور جو اشیا باہمی لڑائے جھگڑے اور تنازع کا باعث ہوں تو اس سے روکنا واجب ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ
 ترجمہ: یقیناً شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب نوشی اور جوا بازی سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض پیدا کر دے اور تمہیں اللہ تعالی کے ذکر اور نماز سے روک دے۔ تو کیا تم ان چیزوں سے رکنے والے ہو؟[المائدۃ: 91]

5- اس قسم کی ڈسکاؤنٹ آفروں میں ایسے تاجر حضرات کو نقصان ہوتا ہے جو اس اسکیم میں شرکت نہیں کرتے۔

"مذکورہ کارڈ کو استعمال کرنا دکانداروں کے درمیان لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے جو دکاندار اس اسکیم میں شامل ہوتے ہیں ان کا نہ شامل ہونے والے دکانداروں سے اختلاف پیدا ہو جاتا ہے؛ کیونکہ اسکیم میں شامل دکانداروں کا مال ختم ہو جاتا ہے جبکہ دیگر کا مال پڑا رہ جاتا ہے۔"
فتاوی دائمی فتوی کمیٹی: (14/10)

6- ڈسکاؤنٹ کارڈ لینے والے کی طرف سے جو رقم اد اکی جاتی ہے اس کا کوئی حقیقی معاوضہ یا بدلہ نہیں ملتا، چنانچہ اگر کوئی شخص اسی دکاندار سے بغیر کارڈ کے رعایت مانگے تو اسے بھی وہی رعایت یا اس کے قریب قریب رعایت مل جاتی ہے، اس طرح کارڈ لے کر رعایت حاصل کرنے والے شخص کو اس کی ادا کی ہوئی کارڈ کی قیمت کا کوئی حقیقی معاوضہ یا بدلہ نہیں ملتا، یعنی یہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے ہڑپ کرنے کے زمرے میں آتا ہے اور یہ قرآن کریم کی واضح نص کی رو سے حرام ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے مال کو آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ۔ [النساء: 29]

رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہ کونسل کے اٹھارویں اجلاس میں مذکورہ ڈسکاؤنٹ کارڈز کے استعمال کی حرمت کا اعلامیہ بایں الفاظ جاری کیا جا چکا ہے کہ: "اس موضوع سے متعلق پیش کیے گئے تحقیقی مقالات اور تفصیلی بحث کے بعد یہ قرار پایا کہ: مذکورہ ڈسکاؤنٹ کارڈ سالانہ فیس یا یک مشت ادائیگی کے عوض جاری کرنا یا انہیں خریدنا؛ ناجائز ہیں، اس لیے کہ اس میں جہالت ہے؛ کیونکہ ڈسکاؤنٹ کارڈ کا خریدار رقم کی ادائیگی تو کرتا ہے لیکن اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے اس کے عوض کیا ملے گا، یعنی خریدار کی طرف سے ادائیگی یقینی ہے لیکن فائدہ اور عوض غیر یقینی ہے۔"

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کی جانب سے اس قسم کے ڈسکاؤنٹ کارڈ استعمال کرنے کی حرمت کا فتوی جاری ہو چکا ہے، ایسے ہی انفرادی طور پر شیخ ابن باز اور ابن عثیمین رحمہما اللہ نے بھی ان کی حرمت کا فتوی دیا ہے۔

دیکھیں: "فتاوى اللجنة الدائمة" (14/6) ، "فتاوى ابن باز" (19/58)

البتہ فری ڈسکاؤنٹ کارڈ جو کہ خریداروں کو بغیر کسی عوض کے تقسیم کیے جاتے ہیں تو انہیں استعمال کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ مفت میں ڈسکاؤنٹ کارڈ کی فراہمی اسے عقد تبرع میں تبدیل کر دیتی ہے، اور عقد تبرع میں جہالت اور غرر معاف ہوتے ہیں۔

جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر مفت ڈسکاؤنٹ کارڈ کو استعمال نہ کیا جائے تو صارف کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہے۔

یہی بات اسلامی فقہ کونسل کے اعلامیہ میں ہے کہ:
"اگر یہ ڈسکاؤنٹ کارڈ کسی عوض کے بغیر مفت میں مہیا کیے جاتے ہیں تو پھر انہیں جاری کرنا اور انہیں استعمال کرنے کے لیے وصول کرنا دونوں ہی شرعی طور پر جائز ہیں؛ کیونکہ یہ تحفہ دینے یا تبرع کا وعدہ ہے۔"

مزید تفصیلات جاننے کے لیے آپ : الشیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کی کتاب: "بطاقة التخفيض حقيقتها التجارية وأحكامها الشرعية"

اور اسی طرح ڈاکٹر خالد مصلح کی کتاب:
"الحوافز التجارية التسويقية وأحكامها في الفقه الإسلامي" کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

معاملات
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔