"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: روزے کی فضیلت سے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ: (موسی علیہ السلام نے کہا: پروردگار! آپ نے مجھے بلا ترجمان شرفِ گفتگو بخشا ہے، تو کیا یہ مقام میرے علاوہ کسی اور کو بھی عطا کیا ہے؟ اللہ تعالی فرماتے ہیں: موسی! میں ایک امت بھیجوں گا -یعنی امت محمدیہ - جب ان کے ہونٹ اور زبانیں خشک ہوں گی، ان کے جسم کمزور اور نحیف ہو چکے ہوں گے، وہ جب مجھے پکاریں گے تو وہ تم سے بھی زیادہ میرے قریب ہوں گے۔
موسی! جس وقت تم میرے ساتھ محوِ کلام تھے اس وقت میرے اور تمہارے درمیان 70000 پردے تھے، لیکن افطاری کے وقت میرے اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی بھی پردہ نہیں ہوگا) تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ یہ انٹرنیٹ پر بہت زیادہ مشہور ہو چکی ہے۔
الحمد للہ.
یہ حدیث سنت نبویہ میں موجود نہیں ہے، نہ ہی اس حدیث کو حفاظِ حدیث اور محدثین کرام اپنی مسانید اور کتب حدیث میں ذکر کرتے ہیں، اسے نقل کرنے والوں میں صرف وہی لوگ شامل ہیں جنہوں نے اپنی کتابیں من گھڑت، جھوٹے واقعات اور خرافات سے بھری ہوئی ہیں، مثلاً: ایک کتاب جس کا نام ہے: " نزهة المجالس ومنتخب النفائس " از مؤرخ اور ادیب عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری (متوفی سن 894 ہجری ) نے اس کتاب کے صفحہ : (182-183) میں عنوان قائم کیا ہے: "باب فضل رمضان والترغيب في العمل الصالح فيه" اور اسی روایت کو نقل کیا ہے۔
اسی طرح تفسیر " روح البیان " صفحہ: (8/112) از اسماعیل حقی، حنفی، خلوتی (متوفی سن 1127 ہجری) میں بھی سائل کے سوال سے مماثلت رکھتی ہوئی بات موجود ہے، اس میں ہے کہ : (موسی علیہ السلام نے کہا: پروردگار! آپ نے مجھے براہِ راست گفتگو کا شرف بخشا تو کیا ایسا مقام آپ نے کسی اور کو بھی دیا ہے؟ تو اللہ تعالی نے وحی کرتے ہوئے فرمایا: موسی! میرے کچھ بندے ہیں جن کو میں آخری زمانے میں پیدا کروں گا اور انہیں ماہ رمضان عطا فرماؤں گا تو میں تم سے زیادہ ان کے قریب ہوں گا؛ کیونکہ جب تم نے مجھ سے بات کی تھی تو میرے اور تمہارے درمیان 70000 پردے تھے، لیکن جب امت محمدیہ روزے رکھے گی اور ان کے ہونٹ سفید ہو چکے ہوں گے، ان کے رنگ پیلے پڑ چکے ہوں گے تو میں افطاری کے وقت اپنے حجابوں کو اٹھا دوں گا، موسی! اس شخص کیلیے خوش خبری ہے جس کا رمضان میں جگر پیاسا ہو اور پیٹ بھوکا ہو )
نیز اس کے متن میں بھی غیر مناسب عبارت ہے وہ یہ ہے کہ: " تو میں تم [موسی علیہ السلام]سے زیادہ ان کے قریب ہوں گا " اور یہ مسلمانوں کے عقائد میں مسلمہ بات ہے کہ تمام انبیائے کرام اور رسول دیگر تمام لوگوں سے افضل ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اولو العزم پیغمبر موسی علیہ السلام سے زیادہ کوئی امت اللہ کے قریب ہو جائے؟ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی موسی علیہ السلام کی بجائے بندوں کے زیادہ قریب ہو! حالانکہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے بارے میں ہی فرمایا ہے کہ:
( وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا )
ترجمہ: اور ہم نے انہیں طور کی دائیں جانب سے آواز دی اور سر گوشی کرتے ہوئے انہیں قریب کر لیا۔ [ مريم:52]
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:
"اللہ تعالی نے انہیں اتنا قریب کر لیا کہ [تورات کی کتابت کیلیے]قلم کے چلنے کی آواز بھی سن لی" دیکھیں تفسیر ابن کثیر: (5/237)
تو خلاصہ یہ ہوا کہ سوال میں مذکور حدیث کسی بھی معتمد حدیث کی کتاب میں موجود نہیں ہے، بلکہ اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ نیز اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر ایمان رکھنا اور اسے صحیح سمجھنا بھی جائز نہیں۔
واللہ اعلم.