"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
الحمدللہ:اول:
كسى بھى عورت كے ليے بغير محرم حج وغيرہ كا سفركرنا جائز نہيں ہے، اور وہ حج وغيرہ كےليے بھى خاوند كى اجازت كے بغير نہيں جا سكتى، اس كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 96670 ) اور ( 99539 ) كے جوابات ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
دوم:
خاوند كے ليے لازم نہيں كہ وہ بيوى كے ساتھ حج پر جائے اور اسى طرح بيوى كے حج كے اخراجات خاوند كے ذمہ نہيں ہيں، الا يہ كہ عقد نكاح ميں اگر بيوى نے حج كرانے كى شرط لگائى ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا مرد كے ليے بيوى كو محرم بن كر حج كرانا واجب ہے، اور كيا حج كے ايام ميں بيوى كے اخراجات خاوند ادا كريگا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" خاوند پر بيوى كو حج كرانا واجب نہيں؛ ليكن اگر عقد نكاح ميں حج كرانے كى شرط ركھى گئى ہو تو پھر اس شرط كو پورا كرنا واجب ہوگا، اور خاوند اپنى بيوى كے حج كے ايام كا خرچ اسى صورت ميں ديگا جب حج فرضى ہو اور خاوند نے بيوى كو حج كرنے كى اجازت بھى دى ہو، تو اس پر صرف حضر كى حالت ميں كيا جانے والا خرچ ادا كرنا ہو گا " انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 21 / 208 ).
سوم:
عورت كے ليے محرم ميں خاوند شرط نہيں، بلكہ خاوند كے علاوہ بھائى اور باپ اور بيٹا اور چچا وغيرہ بھى محرم بن سكتا ہے.
علماء كے ہاں محرم كى تعريف يہ ہے كہ: جس كا نكاح اس عورت كى حرمت كى بنا پر كسى مباح سبب كى بنا پر ابدى طور پر حرام ہو، مثلا نسب يا رضاعت يا سسرالى سبب سے.
محرم مرد كى مثال يہ ہے كہ: باپ اور دادا، بھائى اور چچا ماموں اور بھتيجا اور بھانجا.... يا پھر رضاعى باپ اور بھائى يا سسر اور خاوند كا بيٹا.
ديكھيں: مغنى المحتاج ( 1 / 681 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 5 / 32 ).
اور اسے امانتدار و عاقل ہونا چاہيے، اور اس كے ساتھ جمہور علماء كرام نے بالغ ہونے كى شرط لگائى ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" عورت كے ليے حج فرض ہونے ميں امين محرم كا ہونا استطاعت ميں شرط ہے، كہ ہر عاقل و بالغ اور امانتدار شخص جس سے اس عورت كا ابدى شادى كرنا حرام ہو وہ محرم بنےگا چاہے، چاہے وہ حرمت اس كى قرابت و رشتہ دارى كى بنا پر ہو، يا پھر سسرالى ہو " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 36 - 37 ).
چہارم:
محرم كے ليے خاوند ہونا شرط نہيں كو مدنظر ركھتے ہوئے لازم نہيں كہ عورت اپنےخاوند كے ساتھ ہى حج كرنے جائے، بلكہ وہ خاوند كے علاوہ كسى اور كو اپنا محرم اختيار كر سكتى ہے.
اس بنا پر سوال كرنے والى بہن نےجو خاوند كے ساتھ تعلقات كى صورت حال بيان كى ہے وہ ان شاء اللہ اسكے ليے عذر شمار ہوگى تا كہ وہ اپنے خاوند كے ساتھ حج كا سفر نہ كرے ليكن شرط يہ ہے كہ حج كے سفر كے ليے اسے كوئى اور محرم مل جائے تو پھر.
اور خاوند كو حق حاصل ہے كہ جو شخص محرم بننے كے لائق نہيں وہ اسے اپنى بيوى كا محرم بننے سے روك سكتا ہے يعنى اس كے فسقيا پھر كمزورى يا بيمارى كى بنا پر.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" اگر عورت كومحرم مل جائے تو خاوند اپنى بيوى كو اس كے ساتھ حج پرجانے سے منع نہيں كر سكتا " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 17 / 37 ).
اور اگر خاوند آپ كو آپ كے كسى محرم كے ساتھ سفر نہ كرنے پر مصر ہو اور وہ واقعتا آپ كا محرم لگتا ہو تو پھر ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس كى بات مان ليں، كيونكہ اس كى مخالفت كرنے كا نتيجہ اچھا نہيں ہوگا، اور برے نتائج نكليں گے.
اور اس ليے بھى كہ ہو سكتا ہے حج اس كى ہدايت كا سبب بن جائے، اور اللہ تعالى اس كى حالت اور اخلاق كو تبديل كر دے، كيونكہ انسان كو علم نہيں كہ اس كے ليے كس چيز ميں اور كہاں خير پنہاں ہيں، اور اس كا سبب كيا ہوگا.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے خاوند كو سيدھى راہ دكھائے اور اچھے اخلاق كا مالك بنائے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كرے.
واللہ اعلم