"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جب يہ ظاہر ہوتا تھا كہ اس كى عقل ماؤف ہے اور وہ بڑھاپے ميں داخل ہو كر اپنے ہوش و حواس كھو بيٹھى ہے تو پھر آپ كا اس كے ليے قہوہ بنانے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس كے ذمہ روزے نہيں ہيں، اور بعض اوقات اس كا ہوش و حواس ميں ہونا مثلا وہ يہ كہتى ہو كہ: ايسا كرو يا مجھے فلاں چيز دو تو يہ اس كى عقل پر دلالت نہيں كرتا.
غالبا جو سو برس كى عمر كو پہنچ جاتا ہے وہ ايسى عمر ميں پہنچ جاتا ہے جسے كوئى سمجھ نہيں رہتى اور اس ميں تغير پيدا ہو جاتا ہے، اس ليے اگر آپ كى اس كى حالت يہ لگا كہ اس كى عقل مفقود ہے اور اسے كوئى كنٹرول نہيں تو آپ اسے كھانا پينا دے سكتى ہيں،اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر آپ كو يہ محسوس ہو كہ اس كى عقل ہے اور وہ تساہل و سستى سے كام لے رہى ہے تو پھر آپ اسے قہوہ اور چائے وغيرہ پيش نہ كريں، تا كہ آپ باطل ميں اس كے ساتھ تعاون نہ كريں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى اور تقوى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كيا كرو، اور برائى و ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو المآئدۃ ( 2 ).
جو مسلمان شخص رمضان المبارك ميں صحيح و تندرست ہو كر كھانا طلب كرے تو اسے كھانا پينا نہ ديا جائے، اور نہ ہى سگرٹ وغيرہ اور نہ ہى باطل ميں اس كى معاونت كى جائے.
ليكن اگر اس كى عقل مفقود ہے مثلا پاگل اور مجنون اور بوڑھا جس كے ہوش و حواس قائم نہ ہوں تو ان پر كوئى گناہ نہيں كيونكہ ان سے روزے ساقط ہو چكے ہيں " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.