"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کسی نے حج کا احرام باندھا، اور حلال ہونے کی شرط نہیں لگائی، پھر اس سے وقوفِ عرفہ رہ گیا، (بیماری، یا تاخیر یا بنا کسی عذر کے) تو اس پر کیا ہے؟ وہ اپنے احرام سےکیسے حلال ہوگا؟
الحمد للہ.
پہلی بات:
وقوفِ عرفہ ارکانِ حج میں سے ایک رکن ہے، بلکہ یہ حج کا رکنِ اعظم ہے؛ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، جس نے مزدلفہ کی رات کا تھوڑا سا وقت عرفات میں طلوعِ فجر سے پہلے پا لیا تو اسکا حج مکمل ہے) اسے ترمذی(889) اور یہ الفاظ نسائی (3016) کے ہیں، اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن نسائی میں صحیح کہا ہے۔
اور جو شخص 10 ذوالحجہ کی صبح طلوعِ فجر سے پہلے ایک لمحہ کیلئے عرفات نہ پہنچا، یا میدان عرفات سے گزر بھی نہیں ہوا ، تو اس سے حج رہ گیا ہے ، اس پر تمام علماء کا اجماع ہے۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع" (8/273) میں کہتے ہیں:
"کوئی حج کا احرام باندھے اور دس ذوالحجہ کی طلوعِ فجر تک عرفات نہ پہنچے تو ایسے شخص کے بارے میں اجماع ہے کہ اسکا حج رہ گیا ہے " انتہی
دوسری بات:
جسکا حج رہ جائے اور اس نے احرام باندھتے ہوئے شرط نہیں لگائی- کہ جہاں کہیں اسے روک لیا گیا تو وہ وہی احرام کھول دے گا- تو اس پر کچھ معاملات لازم ہونگے:
1- عمرہ کرکے احرام کھول دے۔
2- آئندہ سال حج کی قضائی دینا واجب ہے، چاہے فوت شدہ حج؛ نفل حج ہی کیوں نہ ہو۔
3- اس پر واجب ہے کہ قضائی دیتے ہوئے قربانی ضرور کرے۔
4- بنا کسی عذر کے عرفات سے لیٹ ہوا تو اللہ تعالی سے توبہ کرنا لازمی ہے۔
یہ خلاصہ ہے ایسے شخص کے بارے میں جس سے حج فوت ہوجاتا ہے۔
ان تمام باتوں کے دلائل حسبِ ذیل ہیں؛
1- جس کا حج رہ جائے وہ اپنے احرام کو طوف، سعی اور بال کٹوا کر یا منڈوا کر کھول دے (یعنی عمرہ کر لے)
اسکی دلیل موطأ امام مالک (870) میں ہے کہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ حج کرنے کیلئے مکہ روانہ ہوئے جب آپ نازیہ مقام پر پہنچے تو آپکی سواری گم ہوگئی ، اور آپ دس تاریخ کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، اور اپنی ہڈ بیتی بیان کی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: "ایسے کرو جیسے عمرہ کرنے والا کرتا ہے، پھر آپ احرام کھول دو، اورآئندہ سال حج کا وقت آئے تو حج کرو اور قربانی بھی دو" نووی رحمہ اللہ نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھیں: "المنتقى شرح الموطأ" (3/7) ، "المجموع" ( 8/ 274 )
2- قضاء اور ہدی کے واجب ہونے کی دلیل عکرمہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن عمرو انصاری کو کہتے سنا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسکی ہڈی ٹوٹ گئی، یا لنگڑا ہوگیا تو اسکا احرام کھل گیا، اور اسے آئندہ سال حج کرنا ہوگا) عکرمہ کہتےہیں کہ میں نے ابن عباس ، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں پوچھا: تو دونوں نے کہا: "حجاج نے سچ کہا ہے" ابو داود (1862) ایک روایت میں لفظ یوں ہیں (جسکی ہڈی ٹوٹ گئی، یا لنگڑا ہوگیا، یا بیمار ہوگیا)اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو کہا تھا: " اورآئندہ سال حج کا وقت آئے تو حج کرو اور قربانی بھی دو " احناف، مالکی، شافعی اور حنبلی سب اسی بات کے قائل ہیں۔
اور امام مالک نے نافع سے انہوں نے سلیمان بن یسار سے بیان کیا کہ "ہبار بن اسود دس ذو الحجہ کو آیا اور عمر رضی اللہ عنہ ہدی نحر کر رہے تھے، تو اس نے کہا: "امیر المؤمنین ! ہم نے تاریخ شمار کرتے ہوئے غلطی کی ، ہم آج کے دن کو یومِ عرفہ (نو ذو الحجہ) سمجھ رہے تھے"، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: "مکہ جا کر تم اور تمہارے ساتھی سب طواف کرو اور اگر تمہارے پاس ہدی ہے تو اسے ذبح کردو، اور اپنے سر کے بال کٹوا لو یا منڈوا لو، اور واپس چلے جاؤ، اور آئندہ سال حج کرو اور قربانی بھی کرو، اگر قربانی کی استطاعت نہ ہوتو تین دن کے روزے ایامِ حج میں اور سات روزے جب واپس چلا جائے"
دیکھیں "المجموع" (8/275)
ابن قدامہ "المغنی" (3/280) میں کہتے ہیں:
"جس کا حج فوت ہوجائے اسے صحیح ترین روایت کے مطابق ہدی لازمی دینی ہوگی، یہ ہمارے ذکر کردہ صحابہ کرام اور فقہاء کا موقف ہے، جبکہ اصحاب الرأی کہتے ہیں کہ اس پر ہدی لازمی نہیں ہے۔۔۔، اور ہماری دلیل حدیثِ عطاء اور اجماع صحابہ ہے " انتہی
ایسے ہی (3/281) پر کہا: "اور اگر وہ اپنے ساتھ ہدی لیکر آیا ہو تو اسے ذبح کردے(یعنی اسی سال جب اسکا حج فوت ہوا ہے) اور یہ ہدی اسکے لئے کافی نہیں ہوگی، بلکہ اسے آئندہ سال بھی ہدی دینی ہوگی، امام احمد نے اسی کو صراحت سے بیان کیا ہے، اور انکی دلیل عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے"
دیکھیں: "المجموع" ( 8/ 275)
3- مذکورہ بالا احکامات میں عذر یا غیر عذر کا فرق نہیں ہے، لیکن گناہ ملنے یا نہ ملنے میں فرق ہوگا اس لئے جو کسی عذر کی بنا پر عرفات نہ آسکا وہ گناہ گار نہیں ہوگا، جبکہ بنا عذر کے عرفات نہ آنے والا شخص گناہ گار بھی ہوگا، گناہ کے متعلق قاضی ابو طیب وغیرہ نے وضاحت کی ہے۔
دیکھیں: "المجموع" (8/276)
واللہ اعلم .